صوبہ پنجاب کے صوبائی وزیر بہبود آبادی سردار ہاشم ڈوگر کے مطابق اگر بڑھتی آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو 2045 تک پنجاب کی آبادی 11 کروڑ سے بڑھ کر 25 کروڑ جبکہ ملکی آبادی 40 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
اس وقت سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک کی کل آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں مسلسل اضافہ ٹائم بم قرار دیا جارہا ہے جس پر محکمہ بہبود آبادی کی جانب سے آبادی پر قابو پانے کے اقدامات تو جاری ہیں لیکن وہ اتنے موثر نہیں کہ آبادی کنٹرول کرنے میں تیزی سے کامیابی مل سکے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے محکمہ بہبود آبادی کو مستحکم کرنے کے بجائے علما کی جانب رخ کرلیا ہے۔
محکمہ بہبود آبادی پنجاب کے ترجمان اختر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نے بتایا: ’پہلے محکمہ بہبود آبادی وفاقی حیثیت سے کام کرتا تھا مگر مشرف دور میں صوبائی سطح پر بھی دفاتر قائم کیے گئے پہلے اس محکمہ کے 14 ہزار ملازمین تھے مگر اب 10 ہزار سے بھی کم ہیں۔ گاڑیاں 20 برس پہلے خریدی گئیں جو ناکارہ ہونے پر نیلام کر دی گئیں، نئی گاڑیوں کی منظوری اور بھرتیوں کی اجازت نہیں مل سکی لیکن محدود وسائل کے باوجود محکمہ آبادی پر قابو پانے کے اقدامات کر رہا ہے۔‘
حکام کے مطابق آبادی میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں شرح خواندگی کا کم ہونا، وسائل کے مطابق بچوں کی تعداد کا شعور نہ ہونا اور مذہبی طور پر بچوں کی تعداد کم رکھنے سے متعلق تنازع بھی ہے۔
بے ہنگم آبادی میں اضافہ سے تمام شہروں میں مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور ملکی وسائل، معیشت پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے حتی کہ خوراک کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑرہا دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ لہذا حکام کے مطابق منصوبہ بندی پروگرام کے ساتھ علما کے ذریعے آگاہی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ’بچے دو ہی اچھے‘ مہم اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ بچوں میں وقفہ ’ماں اور بچے کی صحت‘ میں یہ گنجائش موجود ہے بچے جتنے بھی ہوں صحت مند اوراچھے ہوں۔
صوبائی وزیر نے تسلیم کیا کہ علما کی مخالفت پر حکومت نے ’بچے دو ہی اچھے مہم‘ تبدیل کر کے بچوں میں وقفہ کی تشہیر پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں آبادی پر قابو پانا دشوار کیوں؟
صوبائی وزیر بہبود آبادی و ویلفیئر پنجاب سردار ہاشم ڈوگر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی طرح پنجاب میں بھی آبادی مسلسل بڑھتی جارہی ہے پہلے ہی 11کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے میں مزید آبادی ایک چیلنج بن چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آبادی پر قابو پانے کے لیے بہت سی روکاوٹوں کا سامنا ہے ایک تو مانع حمل ادویات اور آلات کی قلت کا سامنا ہے یہ سب برازیل اور انڈیا سے درآمد کرنی پڑتی ہیں اور مقامی سطح پر تیار نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا عملے اور سہولیات کی بھی قلت پائی جاتی ہے پھر مانیٹرنگ کے لیے گاڑیاں بھی دستیاب نہیں ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آگاہی مہم تیز نہیں کر پارہے کیوں کہ وسائل موجود نہیں ہیں۔
صوبائی وزیر نے بتایا: ’اس کے علاوہ علما کرام بھی خاندانی منصوبہ بندی کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں جس سے لوگ بچے کم رکھنے کو گناہ سمجھتے ہیں لہذا علما کو بچوں میں وقفہ رکھنے سے متعلق آگاہی مہم چلانے کی درخواست کر رہے ہیں۔‘
صوبائی وزیر نے کہاکہ علما کو راضی کرنے کے لیے حکومت ’بچے دو ہی اچھے‘ کے نعرے سے ہٹ کر بچوں میں وقفہ رکھنے کی مہم پر آگئی ہے تاکہ جتنی آبادی کم ہوسکتی ہے اتنی تو کم کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام مکتبہ فکر کے علما دو بچوں کی پابندی کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں لہذا اسلام میں وسائل کے لحاظ سے بچوں میں وقفہ، جس کا مقصد ماں اور بچے کی صحت ہے مناسب سمجھتے ہیں۔
قبلہ ایاز کے بقول: ’نظام قدرت ہے کہ اسلام میں بچوں کی پیدائش کے عمل کو روکنا ممنوع ہے اس لیے آبادی پر قابو پانے کی بجائے صحت مند بچوں کی پیدائش لازمی ہے۔ اس لیے علما بچوں میں وقفے کے حامی ہیں اور اس معاملہ پر حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘
صوبائی وزیر کے خیال میں کم عمر میں شادیاں بھی آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی آبادی اور سہولیات کی کمی
پاکستان میں 2017 کی مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار رواں سال جاری کیے گئے جن میں بتایا گیا کہ ملکی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پنجاب کی آبادی 10 کروڑ 99 لاکھ 89 ہزار 655 افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے جس کی آبادی 4 کروڑ 78 لاکھ 54 ہزار 510 ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات نے 1998 کے بعد 2017 میں ہونے والی ملک کی چھٹی مردم شماری میں دس بڑے شہروں کی آبادی کے اعدادو شمار پیش کیے تھے، جن کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار 521 بتائی گئی، جب کہ 1998 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 98 لاکھ 65 ہزار تھی۔ کراچی سب سے زیادہ آبادی والا شہر جب کہ لاہور دوسرے نمبر پر رہا۔
خیبرپختونخواہ کی آبادی 3 کروڑ 50 لاکھ 8 ہزار 920 ہے۔ سابقہ فاٹا کی آبادی شامل کرنے کے بعد کے پی کی آبادی 3 کروڑ 55 لاکھ ایک ہزار بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 35 ہزار 129 ہے۔
سابقہ فاٹا کی آبادی 49 لاکھ 93 ہزار 44 افراد پر مشتمل ہے، فاٹا اب صوبہ کے پی میں ضم ہو چکا ہے۔
اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ 3 ہزار 368 ہے۔ کراچی کے 6 اضلاع کی مجموعی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار894 نفوس پر مشتمل ہے۔ کراچی اتنی آبادی کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔
حیدرآباد کی آبادی 21 لاکھ 9 ہزار 998 ہے۔ لاہور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کی آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ 19 ہزار 985 ہے۔
فیصل آباد کی آبادی 78 لاکھ 82 ہزار 444 ہے۔ گوجرانوالہ کی آبادی 50 لاکھ 11ہزار 66 ہے۔ راولپنڈی کی آبادی 54 لاکھ 2ہزار 380 ہے۔ پشاور کی آبادی 42 لاکھ 67 ہزار 198 ہے جب کہ کوئٹہ کی آبادی 22لاکھ 69 ہزار 473 ہے۔
یہ اعداد وشمار چار سال قبل کی گئی مردم شماری کے ہیں اس کے بعد بھی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
گذشتہ ہفتے جب یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں اٹھایا گیا تو محکمہ بہبود آبادی کی جانب سے جو متوقع رپورٹ جمع کرائی گئی اس کے مطابق اگر آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو 2045 تک پنجاب کی آبادی 25 کروڑ جب کہ پاکستان کی آبادی 40 کروڑ سے تجاوز کرجائے گی جو ٹائم بم ثابت ہوسکتا ہے۔
محکمہ بہبود آبادی پنجاب کے ترجمان اختر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1998 میں ہونے والی پانچویں مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار ریکارڈ کی گئی۔
جس کے بعد متعدد مرتبہ مردم شماری کی تاریخیں دی گئیں مگر اب 19 سال بعد ہونے والی چھٹی مردم شماری کا آغاز2017 مارچ سے ہوا جوکہ پہلی مرتبہ 2 مرحلوں میں کروائی گئی۔
اس تناسب سے2017 کی مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی میں7 کروڑ سے بھی زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ تشویشناک صورتحال ہے۔