چین انسانی دماغ کنٹرول کرنے والے ہتھیار بنا رہا ہے: امریکہ

2019 میں لکھی گئی فوجی دستاویزات، جنہیں واشنگٹن ٹائمز نے حاصل کرنے کے بعد ترجمہ کیا، میں کہا گیا کہ ’انسانی جسموں کو تباہ کرنے‘ کے بجائے چین کو مخالفین کی مزاحمت کے ارادے پر حملہ کرکے ان کو ’مفلوج اور کنٹرول کرنے‘ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

24  اکتوبر 2018 کی اس تصویر میں  بیجنگ میں چائنا انٹرنیشنل ایگزیبیشن سینٹر میں  منعقدہ ایک نمائش میں لوگ سکرین پر  مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک  سافٹ ویئر پروگرام  دیکھ رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ چین انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے والے ہتھیار تیار کر رہا ہے جو مخالفین کو مارنے کے بجائے مفلوج کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

رواں ماہ ہی امریکہ نے چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز اور اس سے منسلک ایسے 11 تحقیقی اداروں پر پابندی عائد کی ہے، جو چین کی مسلح افواج کے لیے ’بائیو ٹیکنالوجی‘ کا استعمال کر رہے ہیں اور جن کا ’مقصد انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے والے ہتھیار‘ تیار کرنا بھی ہے۔

امریکی محکمہ تجارت، جس نے چینی اداروں کو بلیک لسٹ کیا ہے، نے ان ہتھیاروں کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی لیکن برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق 2019 میں لکھی گئی فوجی دستاویزات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بیجنگ کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مذکورہ دستاویزات، جنہیں واشنگٹن ٹائمز نے حاصل کرنے کے بعد ترجمہ کیا، میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی جسموں کو تباہ کرنے‘ کے بجائے چین کو مخالفین کی مزاحمت کے ارادے پر حملہ کرکے ان کو ’مفلوج اور کنٹرول کرنے' پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے تحت چین کی اکیڈمی آف ملٹری سائنسز اور اس سے منسلک ادارے اب ’اینٹیٹی لسٹ‘ میں شامل ہیں یعنی امریکی فرمز بغیر لائسنس کے انہیں سامان برآمد یا منتقل نہیں کر سکتیں۔

یہ اقدام دیگر سرکاری محکموں کی طرف سے امریکی کمپنیوں کو دیے گئے متعدد انتبہات کے بعد اٹھایا گیا، جن میں خبردار کیا گیا ہے کہ چین بایوٹیک سمیت اہم شعبوں میں امریکی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین جس ٹیکنالوجی کو تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس میں ’جین ایڈیٹنگ، انسانی کارکردگی میں اضافہ اور دماغی مشین میں خلل ڈالنا‘ شامل ہے۔

ڈیلی میل کے مطابق امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈو نے کہا کہ اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ چین اویغور مسلمانوں سمیت اپنے شہریوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایسے کسی بھی ہتھیار کا استعمال کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’بدقسمتی سے عوامی جمہوریہ چین اپنے لوگوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان پر جبر کے لیے ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ میڈیکل سائنس اور بائیو ٹیکنیکل ایجادات کو سپورٹ کرنے والی امریکی اشیا، ٹیکنالوجیز اور سافٹ ویئر کا استعمال امریکہ کی قومی سلامتی کی طرف موڑ دیا جائے۔‘

امریکی محکمہ تجارت نے چین کے ساتھ ساتھ جارجیا، ملائیشیا اور ترکی کی کمپنیوں کو بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے جو مبینہ طور پر امریکی اشیا کو ایرانی فوج کو فراہم کر رہی تھیں۔

بیجنگ میں قائم اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز کووڈ 19 ویکسین کی تیاری میں سرگرم ہے لیکن چین میں سویلین اور ملٹری ریسرچ اداروں کے درمیان رابطوں سے امریکہ پریشانی کا شکار ہے۔

انسانی حقوق کے ماہرین، عینی شاہدین اور امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر ترک زبان بولنے والے مسلمانوں کو ان کی اسلامی ثقافتی روایات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور چین کی ہان اکثریت میں زبردستی ہم آہنگ کرنے کے لیے کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے۔

بیجنگ ان کیمپس کو پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز کے طور پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بہت سی مغربی اقوام کی طرح وہ بھی حملوں کے بعد بنیاد پرست اسلام کی جانب رجحان کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکہ نے چین کی اس مہم کو نسل کشی قرار دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں چین پر دباؤ بڑھاتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے چین کی درد کش ادویات بنانے والی کمپنیوں کو امریکہ کو نشے کے بحران میں مبتلا کرنے پر نشانہ بنایا تھا جبکہ اس سے قبل آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ مل کر امریکہ بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا بھی اعلان کرچکا ہے۔

دوسری جانب چین نے جمعرات کو امریکہ کی جانب سے چار چینی کیمیائی کمپنیوں اور ایک فرد پر مبینہ طور پر درد کش ادویات کی تجارت پر غیر قانونی آن لائن ترسیل کا الزام لگانے کے بعد پابندی لگانے پر غصے کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے صحافیوں کو بتایا: ’اس قسم کی غلط حرکتیں تعمیری نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا