ایران کی جانب سے اعلیٰ عہدیداروں سمیت تقریباً 50 امریکیوں پر پابندیوں کے اعلان کے بعد امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے کسی امریکی شہری کو نشانہ بنایا تو اس کو’ سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ ’کوئی غلطی نہ کریں: امریکہ اپنے شہریوں کا تحفظ اور دفاع کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اگر ایران نے نامزد کیے گئے 52 افراد سمیت ہمارے کسی بھی شہری کو نشانہ بنایا تو اس کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
اسلامی جمہوریہ نے ہفتے کو 50 افراد پر پابندیوں کا اعلان کیا تھا جن میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت میں ان کے کردار کی وجہ سے امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین مارک ملی بھی شامل ہیں۔
ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے رہنما قاسم سلیمانی کو تین جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا، جسے ایران نے گذشتہ ہفتے ’سنگدل دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق جیک سلیوان نے کہا کہ ایران نے اس وقت پابندیاں لگائیں جب تہران نواز پراکسی ملیشیا مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں پر مسلسل حملے کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’امریکہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی حملے کو روکنے اور اس کا جواب دینے کے لیے کام کرے گا۔‘
مارک ملی کے علاوہ ٹرمپ دور کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن اور نکی ہیلی بھی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے طنزیہ ردعمل میں نکی ہیلی نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ مجھے ایران کا اپنا تفریحی سفر منسوخ کرنا پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’جب آپ پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی سرکردہ ریاست ایران کی طرف سے پابندی لگائی جاتی ہے تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘
ایران نے قاسلم سلیمانی کی ہلاکت کے معاملے پر گذشتہ ہفتے مزید درجنوں امریکیوں پر پابندیاں عائد کیں، جن میں سے اکثر کا تعلق امریکی فوج سے تھا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ 51 امریکیوں پر ’دہشت گردی‘ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اس فیصلے کے بعد ایرانی حکام پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد کے ایران میں موجود اثاثے ضبط کر سکیں گے، لیکن اثاثوں کی غیر موجودگی کا مطلب ہے کہ یہ پابندیاں ممکنہ طور پر علامتی ہوں گی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے بیان میں 52 افراد کا حوالہ کیوں دیا گیا جب کہ تہران نے کہا کہ اس نے 51 افراد پر پابندیاں لگائی ہیں۔
ایک سال قبل بھی ایران نے ڈونلڈ ٹرمپ اور کئی سینیئر امریکی حکام پر پابندیاں عائد کی تھیں، اور چند روز قبل ہی جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ اگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاسم سلیمانی کے قتل کا مقدمہ نہیں چلایا جاتا، تو امریکہ سے بدلہ لیا جائے گا۔
واشنگٹن اور دیگر عالمی طاقتیں اس وقت ویانا میں ایران کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں جس کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی ہے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پیچھے ہٹتے ہوتے ایران پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
ان مذاکرات میں اب تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو سکی، تاہم ایرانی وزیر خارجہ کا دعویٰ اس کے برعکس ہے۔
اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت ایک ’اچھے معاہدے‘ کے قریب پہنچ رہی ہے لیکن جلد ہی کسی معاہدے تک پہنچنے کا انحصار دوسرے فریقوں پر ہے۔