سپین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سیف گارڈ ڈیفنڈرز کا کہنا ہے کہ چین سال 2014 سے بیرون ملک مقیم تقریباً دس ہزار چینی شہریوں کو زبردستی ملک واپس لایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا کہ چین نے ایسا قانونی دائرہ کار سے باہر موجود طریقوں کے ذریعے کیا ہے۔
سیف گارڈ ڈیفنڈرز کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار ’صرف اس معاملے کا آغاز‘ ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ چین بیرون ملک طاقت کے استعمال کی اپنی پالیسی کو توسیع دیتے ہوئے غیر ملکی زمین پر غیر قانونی کارروائیاں کر رہا ہے۔
سرکاری طور پر ان کارروائیوں کا ہدف بننے والے افراد چینی صدر شی جنگ پنگ کی بدعنوانی کے خلاف مہم کے تحت چینی عدالتی نظام کو مطلوب ہیں۔
لیکن غیر سرکاری تنظیم نے ایسے کیسز کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جس میں ایسے افراد کے رشتہ داروں کو چین میں ہراساں اور گرفتار کیا گیا، جو چینی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی پر تنقید کرتے تھے۔
سپین کی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق دو کارروائیوں، جن کے نام ’آپریشن فاکس ہنٹ‘ اور ’آپریشن سکائی نیٹ‘ تھے، میں کچھ افراد کو ہدف بنا کر ان کی مرضی کے خلاف چین واپسی کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ ان کارروائیوں میں ماورائے عدالت طریقے استعمال کیے گئے، جن میں اغوا، ہراسانی اور زبردستی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بیرون ملک موجود چینیوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ چین چھوڑنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بیجنگ اس سے قبل بیرون ملک اپنی سکیورٹی فورسز کی طاقت بڑھانے میں اس سے زیادہ متحرک نہیں رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنظیم سیف گارڈ ڈیفینڈرز نے اس سلسلے میں حکومت کا فراہم کردہ ڈیٹا بطور شواہد پیش کیا ہے، جس کے مطابق سال 2014 سے تقریباً دس ہزار چینی شہریوں کو زبردستی واپس لایا گیا ہے۔
بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے حکومتی ادارے کے اعداوشمار کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران بیجنگ بیرون ملک سے 2500 کے قریب افراد کو واپس لایا ہے، لیکن ان میں وہ افراد شامل نہیں جو غیر معاشی جرائم میں ملوث نہیں رہے یا ایسے افراد جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن نہیں ہیں۔
این جی او کی رپورٹ میں ایسے افراد کے چین میں موجود اہل خانہ کو ہراساں کرنے اور بیرون ملک مقیم اہداف کو دھمکانے کے لیے چینی ایجنٹ بھیجے جانے کے واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
تنظیم کے مطابق بعض اوقات بیرون ملک مقیم افراد کو تیسرے ملک آنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور انہیں ایسے ممالک بلایا جاتا ہے جن کے چین کے ساتھ حوالگی کے معاہدے ہیں۔
آپریش فاکس ہنٹ سال 2014 میں ایسے افراد کو تلاش کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جو معاشی جرائم میں ملوث تھے جب کہ آپریشن سکائی نیٹ 2015 میں شروع کیا گیا جس کو بعد میں فاکس ہنٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔
چین پر اس سے قبل بھی بیرون ملک اغوا کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔
سال 2015 میں کتب فروش سویڈش شہری گوئی من ہائی کو مبینہ طور پر تھائی لینڈ سے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد وہ چین کی حراست میں ظاہر ہوئے تھے۔
اس واقعے کے دو سال بعد ارب پتی کاروباری شخصیت شیاؤ جیان ہوا ہانگ کانگ سے غائب ہو گئے تھے جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ ابھی تک چین کی حراست میں ہیں۔
چین میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر کنٹرول عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو سزا سنا دی جاتی ہے۔
یاد رہے چین پر مغربی ممالک کی جانب سے چین میں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے اقوام متحدہ کے ریسرچرز اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ چینی صوبے سنکیانگ کے کیمپوں میں اندازاً 10 لاکھ سے زائد مسلمان زیر حراست ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہرین، عینی شاہدین اور امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد اویغور اور دیگر ترک بولنے والے مسلمانوں کو زبردستی چین کی ’ہان‘ اکثریت میں ضم کرنے کی کوشش میں کیمپوں میں قید کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ چین نے پورے سنکیانگ میں ایک ہائی ٹیک نگرانی کا نظام قائم کر رکھا ہے، جو بائیو میٹرک چہرے کی شناخت کا استعمال کرتا ہے اور اس نے اویغوروں کو دبانے کی منظم کوشش کے حصے کے طور پر 12 سے 65 سال کی عمر کے تمام رہائشیوں سے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے ہیں۔
دوسری جانب چین ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان مقامات کو پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بہت سے مغربی ممالک کی طرح وہ بھی مہلک حملوں کے بعد ’بنیاد پرست اسلام‘ کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خیال رہے گذشہ ماہ دسمبر میں امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر ووٹ دے کر ایک بل کو کانگریس کی حتمی منظوری دی تھی، جس کے تحت جبری مشقت کے پھیلاؤ کے خدشات پر چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ سے تقریباً تمام درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ان اقدامات سے امریکہ اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔