’ میں تہران محنت مزدوری کے لیے گیا تو وہاں میرے ساتھ کمرے میں ایک بنگالی تھا۔ مہینوں تک جب گھر سے فون نہیں آتا تھا تو وہ مجھے کہتے تھے کہ آپ کے گھر والے رابطہ کیوں نہیں کرتے تو میں شرم کی وجہ سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہمارے علاقے میں موبائل سگنلز نہیں ہیں۔‘
یہ کہنا تھا جنوبی وزیرستان کے علاقے ثمر باغ سے تعلق رکھنے والے یونس خان کا جو ان منتظمین میں شامل ہیں جو ثمرباغ میں موبائل ٹاور لگانے کے لیے گزشتہ 132 دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
یہ دھرنا ثمرباغ کے داخلی راستے اور ڈیرہ اسماعیل خان وانا کی مین شاہراہ پر جاری ہے جہاں پر موبائل سگنلز کام کر رہے ہیں لیکن ثمرباغ کے علاقے میں موبائل سگنلز نہیں ہیں۔
دھرنے کے مقام سے فون پر بات کرتے ہوئے یونس خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے لمبے عرصے کے لیے دھرنا دیا ہے لیکن ابھی تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے۔‘
یونس نے بتایا ’ہمارے بہت جینوئن اورآسانی سے حل ہونے والے مطالبات ہیں جن میں ایک موبائل ٹاور کی تنصیب اور گاوں کی 18 کلومیٹر روڈ پکی کرنا شامل ہے جس کے لیے ہم 132 دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔‘
یونس نے بتایا موبائل ٹاور نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا رابطہ دنیا سے بالکل منقطع ہے۔ انھوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ وہ تہران میں تھے تو ان کے ساتھ کمرے میں ایک بنگالی شخص تھے جو گھنٹوں اپنے گھر والوں سے فون پر باتیں کرتے تھے۔
یونس نے بتایا کہ ’جس وقت بنگالی کھانا پکاتے تھے تو وہ فون مجھے دیتے تھے کہ کھانا پکانے تک آپ بھابی کے ساتھ باتیں کریں تو اسی دوران بنگالی مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا آپ کے گھر والے آپ کو فون وغیرہ نہیں کرتے؟‘
یونس نے بتایا’ ابتدا میں تو میں بہانے بنا کر ان کو کہتا تھا کہ یہ ہمارے کلچر میں نہیں ہے کہ اہلیہ کے ساتھ فون پر باتیں کریں لیکن آخر میں بتا دیا کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں پر موبائل سگنلز موجود نہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہ مسئلہ صرف میرا نہیں ہے بلکہ ثمر باغ کی تقریبا 18ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کا ہے جو اس جدید دور میں بھی موبائل سگنلز نہ ہونے سے پریشان ہے اور دنیا سے ان کا رابطہ منقطع ہے۔‘
یونس نے بتایا کہ دوسرا مطالبہ 18کلومیٹر روڈ کا ہے جو ایک لمبے عرصے سے خستہ حالی کا شکار ہے لیکن انتظامیہ اس کو پکا کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
یونس نے بتایا’سڑک کسی بھی علاقے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب بھی کوئی بیمار پڑ جائے تو سڑک خراب ہونے کی وجہ سے منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے تاکہ ہسپتال پہنج جائیں۔‘
جس جگہ میں موبائل ٹاور لگانے اور روڈ پکی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہاں کے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر جیل میں ہیں اور ان کے علاوہ یونس خان کے مطابق ابھی تک کسی حکومتی نمائندے نے رابطہ نہیں کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا دن رات دھرنے میں شرکا موجود ہوتے ہیں، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’دن میں لوگوں کی الگ اور رات کو الگ شفٹ ہوتی ہے لیکن دھرنا دن رات جاری ہوتا ہے اور تب تک دھرنا جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔‘
شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کچھ دن پہلے اسی دھرنے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گئے تھے۔ محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں دھرنے کے لیے گیا تھا اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ اتنے دنوں سے دھرنا جاری ہے لیکن کسی حکومتی نمائندے یا انتظامیہ نے ان کو مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔‘
محسن داوڑ کا کہنا تھا ’ان کے مطالبے چھوٹے اور بہت بنیادی ہیں لیکن ان کو حل کرنے کے لیے حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔آج کے جدید دور میں اتنے چھوٹے مطالبات کے لیے اتنے دن تک دھرنا دیا جا رہا ہے اور زیادہ آفسوس اس بات کا ہے کہ متعلقہ ادارے ان کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔‘