مغربی افریقی ملک برکینا فاسو اتوار کو بین الاقوامی شہ سرخیوں میں تب آیا جب فوجی بیرکوں سے مشین گن فائرنگ کی گئی اور فوجیوں نے ملک کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں سے اپنے وسائل کے لیے تعاون بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
فوجی بغاوت کیوں کر رہے ہیں؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ القاعدہ اور داعش سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے ’مناسب‘ وسائل اور تربیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فوج اور انٹیلی جنس سربراہوں کے استعفے اور زخمی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کی بہتر دیکھ بھال کا مطالبہ کیا۔
برکینا فاسو کی فوج کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ عسکریت پسند برکینا فاسو کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں اور انہوں نے کچھ باشندوں کو ’اسلامی قانون کے سخت ورژن‘ کی پابندی کرنے پر مجبور کیا ہے۔
برکینا فاسو میں عوامی اشتعال نومبر میں اس وقت بھڑک اٹھا جب القاعدہ سے وابستہ بندوق برداروں نے حملہ کیا اور برکینا فاسو کے شمالی قصبے انتا میں سونے کی کان کے قریب ایک حملے میں 49 فوجی اہلکار اور چار شہری مارے گئے۔ لوگ ان خبروں سے مشتعل تھے کہ ان کے فوجیوں کے پاس دو ہفتوں کا راشن بھی نہیں تھا۔
روچ کابور، نومبر 2020 میں دوسری مدت کے لیے برکینا فاسو کے صدر منتخب ہوئے، اس کے بعد سے انہیں احتجاج اور اقتدار چھوڑنے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبات کا سامنا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم اور فوجی سربراہان کی جگہ لے لی ہے لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔
یہ معاملہ اس خطے کے لیے کیوں اہم ہے؟
اتوار کی بغاوت مغربی افریقہ کے ساحلی علاقے میں بڑھتی ہوئی داعش اور القاعدہ کی بغاوت کے سیاسی نتائج کو واضح کرتی ہے۔ عسکریت پسندوں نے لینڈ لاکڈ برکینا فاسو سمیت ہمسایہ ممالک مالی اور نائجر کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
شورش برکینا فاسو میں قومی وسائل کو ضائع کر رہی ہے جو کہ سونا پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود، مغربی افریقہ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اس نے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو تنازعات اور خشک سالی کی وجہ قحط سالی کی طرف جاتے دیکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عسکریت پسندوں کے حملوں نے کسانوں کو ان کی زمینوں سے بھگا دیا ہے، جبکہ سونے کی کانوں کا کنٹرول عسکریت پسندوں کے حوالے ہو چکا ہے۔ عسکریت پسندوں نے مغربی مفادات پر بھی حملہ کیا ہے، جن میں کان کنی کی بڑی کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے قافلے بھی شامل ہیں۔
علاقائی ماہرین کے مطابق عسکریت پسندوں اور ان کے حملوں سے مغربی افریقہ کو مزید عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
مالی میں پیش آمدہ بڑی ہلچل کے پس منظر میں شورش چل رہی ہے، اگست 2020 سے اب تک دو فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے لیے فرانس کے مالی میں 5,100 فوجی تعینات ہیں، اس تعداد کو کم کرنے کا فیصلہ بھی فرانس کی طرف سے کیا جا چکا ہے۔