امریکہ نے روس کی جانب سے ’حملے کے مسلسل خطرے‘ کے سبب یوکرین میں موجود اپنے سفارت کاروں کے اہل خانہ کو دارالحکومت کیف چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے سفارت خانے کے اپنے غیر ضروری عملے کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ بھی ’رضاکارانہ‘ طور پر جاسکتے ہیں۔
اسی طرح یوکرین میں امریکی شہریوں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ ’اب روانگی پر غور کریں‘، کیونکہ روس کی جانب سے کسی بھی ممکنہ دراندازی کے نتیجے میں واشنگٹن اپنے شہریوں کے انخلا کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔
روس یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر ٹینکوں کے اسلحہ خانے، جنگی گاڑیاں، توپ خانے اور میزائلوں سمیت ہزاروں فوجی جمع کر رہا ہے۔
ان اقدامات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کی جانب سے سخت انتباہات جاری کیے گئے ہیں لیکن اب تک کی سفارت کاری کے بہت کم نتائج ملے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی دفتر خارجہ (سٹیٹ ڈپارٹمنٹ) کے عہدیداروں نے زور دیا کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں سفارت خانہ کھلا رہے گا اور یہ اعلان انخلا نہیں ہے۔ حکام نے کہا کہ یہ اقدام کچھ عرصے سے زیر غور تھا اور یہ یوکرین کے لیے امریکی حمایت میں نرمی کی عکاسی نہیں کرتا۔
اے ایف پی کے مطابق امریکہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی سفارت خانہ کھلا ہے اور چارج ڈی افیئرز کرسٹینا کوین فی الحال وہیں مقیم ہیں۔
عہدیدار نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے پہلے کی وارننگ کو دہرایا کہ ’کسی بھی وقت‘ حملہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد تجارتی یا نجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے وہاں سے نکلنے پر غور کریں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ’ہنگامی صورتحال میں اپنے شہریوں کو نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔‘
مذکورہ عہدیدار نے یوکرینی سرزمین پر امریکیوں کی تعداد ظاہر کرنے سے انکار کیا لیکن دفتر خارجہ کے نمائندوں نے گذشتہ ماہ یہ تعداد 10 سے 15 ہزار کے درمیان بتائی تھی۔
روس کے حملے کے امکان کی وجہ امریکی دفتر خارجہ پہلے ہی مشورہ دے چکا ہے کہ یوکرین کا سفر نہ کیا جائے۔
اتوار کو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے شہریوں کو روس، خاص طور پر یوکرین کے ساتھ اس کی سرحد پر واقع علاقوں کا سفر کرنے سے بھی منع کیا اور خبردار کیا کہ انہیں ’ہراسانی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور واشنگٹن کے پاس ان کی مدد کرنے کی ’صلاحیت محدود‘ ہوگی۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ وہ امریکی شہری ’جو روس کے دورے پر ہیں یا وہاں رہائش پذیر ہیں، ان سے بغیر کسی وجہ کے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور روسی حکام نے انہیں دھمکیاں دی ہیں اور انہیں ہراسانی، بدسلوکی اور بھتہ خوری کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کرنے کے کسی بھی ارادے کی تردید کرتا ہے، تاہم اس نے گذشتہ سال سے ہی یوکرین کی سرحد کے قریب ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں مزید اڈے قائم اور مشرق کی سمت مزید توسیع نہیں کرے گا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روسی مطالبات کو ’دکھاوا‘ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ روس کے ساتھ جینیوا میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ’روس نے یوکرین کی کنپٹی پر بندوق تان رکھی ہے۔‘
گذشتہ سال جون میں جنیوا میں امریکی صدر جوبائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں صدور نے ’استحکام پر مبنی مسلسل مذاکرات‘ پر اتفاق کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے درمیان دو بار فون پر بھی بات ہو چکی ہے جس میں امریکی صدر نے روسی صدر کو یوکرین پر حملہ کرنے سے باز نہ رہنے کی صورت میں سنگین نتائج کی تنبیہ کی ہے۔
دوسری جانب اتوار کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کسی بھی ممکنہ حملے سے قبل ماسکو پر تعزیری پابندیاں عائد کرنے کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں حملے کو ’روکنے‘کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا: ’ایک بار پابندیاں عائد ہونے کے بعد آپ روک نہیں سکتے، چنانچہ جو ہم کر رہے ہیں وہ اقدامات کا ایک پورا سلسلہ ہے اور جو ہوسکتا ہے صدر (ولادی میر پوتن) کی سمجھ میں آجائے۔‘
امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ ان (اقدامات) میں مزید فوجی امداد کے ساتھ یوکرین میں دفاع کو بڑھانا بھی شامل ہے۔