یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ روس کی جارحیت کا اصل محرک بڑی حد تک مغرب کے اقدامات کا تعین کرے گا۔
یوکرین کے ساتھ اپنی مغربی سرحد پر ایک لاکھ فوجی جمع کرنے کے باوجود روس نے بار بار اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کرنے کے ارادے کی تردید کی ہے، لیکن ماسکو نے کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان بھی کیا ہے۔
اگر روسی حکومت اپنے بقا کی منطق سے اقدامات کرتی ہے تو مغربی ممالک کی کوئی بھی چھوٹ روس کو یوکرین کی ریاست کو مسلسل کمزور کرنے کی کوشش سے نہیں روک سکے گی۔
ہمارا ماننا ہے کہ دو غالب نقطہ نظر ہیں جو یوکرین کے ساتھ روس کی حالیہ کشیدگی میں اضافے کی وضاحت کرسکتے ہیں۔
ایک یہ کہ روس کی پالیسی طاقت اور سلامتی کے تصورات پر مبنی ہے اور دوسرا یہ کہ اپنے گھر میں درپیش مسائل ماسکو کو مزید جارحانہ پالیسی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ دونوں کے خطے کے لیے عملی اثرات ہیں۔
اقتدار کی سیاست
پہلا منظر نامہ اقتدار کی سیاست کے حوالے سے روس کے اقدامات کی تشریح کرتا ہے۔ روس کا مقصد یوکرین اور مغرب کے درمیان مزید سلامتی اور دفاعی تعاون کو روکنا ہے، جس میں مستقبل میں نیٹو میں اضافہ بھی شامل ہے۔
اگرچہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے لیکن وہ اس تنظیم کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے جس کا ایک طویل عرصے سے مقصد مکمل رکن بننا ہے۔
روس یہ بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ یوکرین اپنے جنوب مشرق کے دو علیحدگی پسند علاقوں لوہنسک اور ڈونیٹسک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، جہاں روسی حمایت یافتہ باغی 2014 سے باقاعدہ یوکرینی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ آیا یوکرین کے بارے میں روس کی پالیسی کی تشکیل دفاعی مقاصد کی وجہ سے ہوئی ہے یا ماسکو کے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے کے عزائم جیسے مقاصد کی وجہ سے ہوئی ہے۔
دفاعی نظریہ سمجھنے والے افراد کے لیے روس/مغرب/یوکرین کے تعلقات اس بات کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کو بین الاقوامی تعلقات کی زبان میں ’سلامتی کا المیہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق کی دفاعی سرگرمیوں کو دوسرا فریق جارحانہ اور ممکنہ طور پر خطرناک سمجھ سکتا ہے۔
سکیورٹی ہی وہ محرک تھی جس کی وجہ سے 1990 کی دہائی میں وسطی یورپی ریاستیں نیٹو کی جانب بڑھیں اور یوکرین نے اس اتحاد کے ساتھ قریبی تعلقات کو مستقل فروغ دیا۔
لیکن روس نیٹو میں مزید ممالک کے اضافے کو ایک جارحانہ اقدام قرار دیتا ہے۔ ماسکو کے بیانیے کے مطابق اس کو واشنگٹن نے ترتیب دے کر روس کو نشانہ بنایا تھا۔
روس عام طور پر نئے اراکین کی شمولیت کو’نیٹو کی توسیع‘ کہتا ہے۔ حالانکہ یہ عمل ہمیشہ ان ممالک کی خواہش پر ہوتا ہے جو اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس کا موازنہ نوآبادیاتی سلطنتوں کو وسعت دینے سے نہیں کیا جاسکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے باوجود کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ کریمیا کا انضمام روس کے جائز سلامتی خدشات سے پیدا ہوا ہے۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ مغرب نے اس کے مفادات کو نظر انداز کر دیا ہے، روس نے کریمیا کے ساتھ الحاق کرکے نیٹو اور یورپی یونین کے اضافے اور لبرل جمہوریت کے اقدامات کا جواب دیا۔
جو ماہرین سمجھتے ہیں کہ روس کے مقاصد حارحانہ ہیں وہ یوکرین کے بارے میں روس کی پالیسی کو سوویت یونین کے بعد کے خطے میں علاقائی غلبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان روسی کارروائیوں کا مقصد سوویت یونین کو دوبارہ تخلیق کرنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ روس کے آس پاس فوجی طور پر کوئی اور بڑی طاقت موجود نہ ہو۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر الیاس گوٹز نے بتایا کہ 1991 سے روس نے سیاسی دباؤ، اقتصادی پابندیوں یا فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے خارجہ پالیسی میں یوکرین کی خود مختاری کو روکنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب خصوصاً امریکہ کے ساتھ یوکرین کے تعلقات جتنے قریبی ہوں گے، روس کا ردعمل اتنا ہی جارحانہ ہوگا۔
اگر روسی حکومت صرف سیاسی طاقت کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے تو یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ایک دیرپا سمجھوتہ ممکن ہے۔ اس کے لیے مغرب اور یوکرین کی جانب سے سمجھوتوں کی ضرورت ہوگی۔ مغرب کو اپنی فوجی امداد کو محدود کرنے اور بنیادی طور پر یوکرین کے ساتھ صرف اقتصادی تعلقات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی۔
چین خطے میں اپنا معاشی اور سیاسی اثرورسوخ بتدریج بڑھا رہا ہے مگر فوجی تعیناتیوں سے دور ہی رہا ہے۔ سوویت یونین کے بعد چین کی بڑھتی ہوئی طاقت پر روس کی کم و بیش رضامندی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ماسکو کسی نہ کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔
یوکرین کو اپنی سلامتی پالیسی کو خود ساختہ طور پر محدود کرکے اس سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی، جیسے کہ فن لینڈ نے سرد جنگ کے دوران کیا اور اپنی اندرونی سیاست میں سوویت عدم مداخلت کے بدلے مغرب کے ساتھ قریبی سلامتی اور دفاعی تعلقات سے مستعفی ہو گیا تھا۔ عملی طور پر اس کا مطلب اثر و رسوخ کی سیاست کی طرف واپس آنا ہے، جہاں ایک ریاست دوسرے ملک یا پورے خطے پر سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ کا دعویٰ کرتی ہے۔
پوتن کی اپنی صورت حال
دوسرا تصور روسی خارجہ پالیسی میں اپنی ملکی سیاست کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ صدر ولادی میر پوتن نے اقتدار میں رہنے کا جواز پیش کرنے کے لیے جو بنیادی دلیل استعمال کی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا واحد متبادل انتشار ہے۔ قازقستان نے حال ہی میں اس بیانیے کی بہترین مثال پیش کی جس پر وہ چاہتے ہیں کہ روسی یقین کریں۔ وہ یہ ہے کہ مظاہرے خلل، تشدد اور یہاں تک کہ غیر ملکی مداخلت کا باعث بنتے ہیں۔
پوتن کی نظر میں مغرب کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے والے ’خوشحال اور کامیاب یوکرین‘ کو کبھی بھی عملی شکل نہیں ملنی چاہیے۔ روس یوکرین کی سیاسی اصلاحات کی ناکامی کو ظاہر کرنے اور مکنہ طور پر اس کا ماسٹر مائنڈ بننے کے لیے کوشاں ہے۔
روس کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی اور یوکرین کی سرکاری ویب سائٹس پر سائبر حملے کو بہت سے لوگ ماسکو کے یوکرینی ریاست کی خودمختاری اور اداروں کو کمزور کرنے کے منصوبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ماسکو نے کریمیا کو ضم کرنے کے ملکی مقاصد کے لیے جارحانہ خارجہ پالیسی کی افادیت کو ظاہر کیا۔ روس کے حامی میڈیا نے اسے مغرب کے خلاف ایک چھوٹی سی فتح اور مغربی ریاستوں کی مبینہ سرپرستی میں عوامی بغاوتوں کے خلاف مناسب ردعمل کے طور پر پیش کیا۔
اس ’اتحاد‘ نے ولادی میر پوتن کو چار سال تک مقبولیت کی اعلیٰ ریٹنگز میں رکھا، تاہم یہ اثرات مستقل نہیں تھے۔ روسیوں کے لیے روس کے موجودہ سیاسی طریقوں پر مایوسی یا اختلاف کا اظہار کرنے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
روسی حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن اور سویت ماضی اور موجودہ روس کے بارے میں متبادل خیالات کو دبانے میں بھاری ہتھکنڈوں نے آخری باقی حفاظتی شیلڈ کو بھی ہٹا دیا ہے۔ مغرب پر ایک اور ’چھوٹی سی فتح‘ سے اضافی وقت مل جائے گا اور 2024 میں پوتن کے دوبارہ کنٹرولڈ صدارتی انتخاب کی راہ ہموار ہوگی۔
اگر روس کے اقدامات حکومت کی بقا کی منطق کی وجہ سے ہیں اور کریملن کو جمہوری اصلاحات کے پھیلاؤ اور ’تاحیات حکمرانوں‘ کو ہٹانے کے مثبت اثرات کا خدشہ ہے تو دور رس مغربی رعایتوں سے بھی امکان نہیں کہ روس یوکرین کی خودمختاری کو کمزور کرنے سے باز رہے۔
روسی اقتدار کے نیٹو سے سیاسی مطالبات، بشمول یہ کہ اتحاد کی فوسز جرمن پولش سرحد پر چلی جائیں، محض ایک دکھاوا ہے۔ ماسکو کے لیے جانی خطرہ نیٹو نہیں بلکہ ایک کم بدعنوان اور معاشی طور پر خوشحال اور جمہوری یوکرین ہے۔
نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے مصنف یونورسٹی آف گلاسگو میں سکیورٹی سٹڈیز کے لیکچرر مارسن کیزمرسکی اور یونیورسٹی آف اینڈبرا میں بین الاقوامی تعلقات اور سیاست کی لیکچرر کاسیا کیزمرسکا ہیں۔