امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پینٹاگون کے حکام کو حکم دیا کہ وہ متعدد بلا جواز جان لیوا واقعات کے بعد فوجی کارروائیوں کے دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر ایک ’ایکشن پلان‘ تیار کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹن نے محکمہ دفاع کی قیادت کو جاری کردہ ایک ہدایت نامے میں کہا: ’شہریوں کا تحفظ بنیادی طور پر امریکی قومی مفادات کے حصول میں طاقت کے موثر اور فیصلہ کن استعمال سے مطابقت رکھتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک سٹریٹیجک اور اخلاقی ضرورت ہے۔‘
آسٹن نے پینٹاگون کے حکام کو اس حوالے سے منصوبہ تیار کرنے کے لیے 90 دن کا وقت دیا ہے کہ جنگی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے اور بلا جواز اور بلا ضرورت ہلاکتوں سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور عراق کے تجربات سے سبق سیکھنے اور ایک ادارہ جاتی طریقے سے شہریوں کے نقصان کو کم کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔
یہ اقدام ایسے کئی واقعات کے بعد سامنے آیا ہے جب پینٹاگون کو غیر ضروری شہری ہلاکتوں پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ حال ہی میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران کابل ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت 10 افراد کی ’غلطی سے‘ ہلاکتوں پر پینٹاگون کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔
اسی طرح نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2019 میں داعش کے خلاف جنگ کے آخری دنوں کے دوران امریکی فوج کی ایک ناقص منصوبہ بندی کے تحت کی گئی بمباری میں تقریباً 70 شہری مارے گئے تھے۔
نیو یارک ٹائمز نے کہا کہ فوج نے اس واقعے کی تحقیقات اور اہلکاروں کے احتساب سے گریز کیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایسے واقعات سے بچنے کے لیے آسٹن نے سینیئر سویلین اور فوجی حکام کو لکھے گئے میمو میں پینٹاگون کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا خاکہ پیش کرنے، سفارشات پر عمل درآمد کے لیے درکار وسائل فراہم کرنے اور اس شعبے میں بہتری کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے ایک ’شہری تحفظ کے مرکز‘ کے قیام کا بھی حکم دیا۔
وزیر دفاع آسٹن نے میمو میں کہا: ’شہری نقصان کو کم کرنے اور اس پر جواب دینے کی ہماری کوششیں امریکی اقدار کی براہ راست عکاسی ہیں۔‘
ادھر امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے آسٹن کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ اقدام کافی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونین کی قومی سلامتی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر حنا شمسی نے اے پی کو بتایا: ’اگرچہ شہری نقصان پر امریکی محکمہ دفاع کی ایک سنجیدہ کوشش کا طویل عرصے سے انتظار تھا اور یہ خوش آئند اقدام ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہدایت نامہ اس ضمن میں کافی ہوگا۔ شہری نقصان سے بچنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ صحیح معنوں میں ادارہ جاتی تبدیلی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر خامیوں، بین الاقوامی قانون کی ممکنہ خلاف ورزیوں اور ممکنہ جنگی جرائم، جو گذشتہ 20 سالوں میں رونما ہوئے ہیں، کو دور کیا جا سکے۔‘
اس سے قبل جمعرات کو ایک وفاقی مالی امداد سے چلنے والے تھنک ٹینک ’آر اے این ڈی کارپوریشن‘ نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج فضائی حملوں میں ہونے والے شہری نقصان اور ہلاکتوں کا اندازہ لگانے اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک ناکافی اور ناقص پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
آر اے این ڈی کارپوریشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں فوج کی اپنی داخلی رپورٹنگ ناقابل اعتبار اور نامکمل ہو سکتی ہے اور شہری ہلاکتوں کے مسائل پر کام کرنے والے حکام اکثر ناکافی تربیت اور معاونت کی کمی کا سامنا کرتے ہیں۔
تھنک ٹینک نے کہا کہ امریکی فوج کو فضائی حملوں سے سویلین سوسائٹی کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں وسیع تر نظریہ رکھنے کی ضرورت ہے، جس میں نہ صرف ہلاکتوں اور زخموں کو بلکہ دیگر شہری بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو کمیونٹیز اور شہروں کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شہری ہلاکتوں کے حوالے سے دیگر کوتاہیوں کے علاوہ پینٹاگون نے تحقیقات کے نتائج کو زیادہ وسیع پیمانے پر عام نہ کرکے غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کی اپنی صلاحیت کو کم کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہاں تک کہ کسی واقعے میں ملوث افراد نے بھی اکثر ان تحقیقات کے نتائج نہیں دیکھے، اس لیے وہ ان واقعات سے سبق نہیں سیکھ سکے۔