رنگا رنگ نقاشی اور کارٹونوں سے مزین یہ چھوٹی سی ’موبائل لائبریری‘ اندر سے بھی اتنی ہی جاذب نظر ہے جتنی باہر سے۔ جب یہ گلی گلی گزرتی ہے تو راہ چلتے ہوئے بچے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگتے ہیں۔
یہ رکشہ وین پشاور کی جس گلی میں بھی رکتی ہے، وہاں کے بچے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ پھر ڈرائیور گاڑی میں رکھی ہوئی دری نکال کر اسی جگہ بچھا دیتے ہیں اور پھر وہ خود یا ان کے ساتھ موجود دیگر رضاکار مرد و خواتین لائبریری میں موجود کہانیوں کی کتابیں کھول کر بچوں کے ساتھ وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔
یہ ’کتاب دوست‘ منصوبہ خیبر پختونخوا میں کاروباری و زراعتی خواتین کی ایک تنظیم ( اے بی پی اینڈ اے ڈبلیو ) نے تین سال قبل شروع کیا تھا، جس کے تحت سرکاری و غیرسرکاری سکولوں سمیت سٹریٹ چلڈرنز کو پڑھانے کے مقصد سے رضاکار مختلف علاقوں میں جاکر انہیں کہانیاں سناتے تھے۔
تنظیم کی صدر بشریٰ رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ایک جانب مطالعے اور کتب بینی کا رواج کم ہوتا جارہا ہے، وہیں سرکاری سکولوں اور بعض نجی سکولوں کے بڑی جماعتوں کے طلبہ وطالبات پڑھائی میں اس قدر کمزور ہیں کہ وہ ایک جملہ بھی ٹھیک سے لکھ اور پڑھ نہیں سکتے،‘ جس کی بنیادی وجہ انہوں نے معیاری تعلیم کی کمی اور بچوں کی مطالعے میں عدم دلچسپی بتایا۔
بشریٰ رحیم نے کہا کہ مذکورہ وجوہات کے سبب بچوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال سکولوں سے باہر ہوجاتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’جب ہم نے بچوں کو کہانیاں سنانا شروع کیں تو مطالعے میں ان کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی۔ وہ ہم سے کتابیں مانگنے لگے۔ وہ پڑھنا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے ہم نے سٹریٹ چلڈرنز کی ایک بڑی تعداد کے لیے ’اجالا‘ کے نام سے سکول کھولا، جہاں وہ پچھلے تین سال سے باقاعدگی سے آرہے ہیں۔‘
بشریٰ رحیم کہتی ہیں کہ ہفتے میں ایک دن ان کے رضاکار کسی ایک علاقے کا انتخاب کرکے وہاں کی کسی گلی یا سکول میں کہانیاں سناتے ہیں، جس کا انہیں بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں صرف سرکاری سکولوں کے بچوں کو مدنظر رکھا گیا، تاہم بعدازاں سٹریٹ چلڈرنز اور غریب کمیونیٹی کے بچوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موبائل لائبریری سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’کتاب دوست‘ پراجیکٹ کی کامیابی اور بچوں کی کتب بینی میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے لاہور کی الف لیلی بکس بس سوسائٹی نے انہیں تحفے میں ایک موبائل لائبریری دی۔
بقول بشریٰ: ’بعض مصنفین نے ہمیں اپنی کتابیں عطیہ کی ہیں، جو اس لائبریری میں موجود ہیں اور ہمارے رضاکار انہیں مختلف علاقوں میں جاکر پڑھاتے رہتے ہیں۔ بچے بہت خوش ہیں بلکہ ان کے والدین ان سے بھی زیادہ خوش ہیں اور انہوں نے ہم سے درخواست کی ہے کہ ہمارا آنا جانا ان کے علاقوں میں جاری رہے، بلکہ جہاں سکول نہیں ہیں وہاں انہوں نے سکول قائم کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اگر اسی طرح کی موبائل لائبریریاں پاکستان کے دور افتادہ علاقوں یا ان علاقوں کے لیے مختص کی جائیں جہاں بچوں کے سکول کم ہیں یا جہاں معیاری تعلیم نہیں ہے تو وہاں کے بچے اس طرح کے اقدام سے کافی مستفید ہوسکتے ہیں۔