یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی مشرقی یورپ میں نیٹو فورس کی قوت میں اضافے کے لیے امریکی فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ روانہ کریں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن نے جمعے کو فلاڈیلفیا سے واشنگٹن واپسی پر صحافیوں کو بتایا: ’میں جلد ہی مشرقی یورپ اور نیٹو ممالک میں اپنے فوجیوں کو منتقل کروں گا۔ لیکن یہ بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہوں گے۔‘
مغربی یورپ میں پہلے ہی امریکہ کے دسیوں ہزار فوجی تعینات ہیں تاہم پینٹاگون کشیدگی کے شکار مشرقی حصے میں کمک بھیجنے کی بات کر رہا ہے۔
رواں ہفتے محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ نیٹو کی مدد کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجی (مشرقی یورپ) میں ممکنہ تعیناتی کے لیے بالکل تیار ہیں۔
امریکی فوج کی یہ تعیناتی سیاسی طور پر بھی اتنی ہی اہم ہوگی جتنی عسکری طور پر کیوں کہ اس سے یوکرین کے تنازع میں امریکی شمولیت کو تقویت ملے گی۔
تاہم حالیہ کشیدگی کے حوالے سے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے مغربی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ان کے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کے بڑے اجتماع پر ’گھبراہٹ‘ کا مظاہرہ نہ کریں۔
غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوکرین صدر کا کہنا تھا کہ : ’ہمیں اس قدر گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‘
یوکرینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ: ’کئی ممالک کے معزز رہنماؤں کی طرف سے بھی ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ گویا کل ہی جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ گھبراہٹ کا مظاہرہ ہے۔ ہماری ریاست کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی؟‘
اگرچہ یوکرین نیٹو اتحاد کا رکن نہیں ہے لیکن واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو اس کے اثرات پڑوسی نیٹو ممالک تک پھیل جائیں گے۔
لیکن ماسکو کا اصرار ہے کہ اس کا سویت یونین کی سابقہ ریاست پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے لیکن کریملن سرحدوں پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کر کے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت روکنے کے ساتھ ساتھ اس سے دیگر مراعات سے بھی واپس لیں۔
بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر روس کا حملہ کریملن کو الٹا پڑ سکتا ہے۔
بائیڈن کے مطابق: ’ اگر وہ (روس) حقیقت میں آگے بڑھتا ہے تو ہم پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ میں فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ وہ نیٹو کا حصہ ہیں۔‘
موجودہ صورت حال کے تناظر میں ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں روسی صدر ولای میر پوتن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے خطے میں کشیدگی میں کمی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
گو کہ نہ صدر پوتن اور نہ ہی ان کے مغربی ہم منصب ہفتوں سے جاری خطے میں دہائیوں کے اس بدترین بحران میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن فرانس کے صدر کے ایک معاون کے مطابق روسی صدر نے ایمانوئل میکروں سےایک گھنٹے سے زائد طویل ٹیلی فون کال کے دوران بتایا کہ ان کا ’کوئی جارحانہ منصوبہ نہیں ہے۔‘
فرانسیسی صدر کے معاون نے کہا کہ میکرون کے ساتھ بات چیت کے دوران پوتن نے ’کسی جارحانہ منصوبے کا اظہار نہیں کیا اور کہا کہ وہ فرانس اور اتحادیوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘
فرانسیسی صدر کے معاون نے صحافیوں کو بتایا کہ اس گفتگو میں تناؤ میں کمی کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔
ان کے بقول: ’پوتن نے بہت واضح طور پر کہا کہ وہ تصادم نہیں چاہتے۔‘
اسی حوالے سے روسی محکمہ دفاع کریملن نے کہا کہ صدر پوتن نے میکروں پر یہ واضح کیا کہ اس ہفتے ان کے مطالبات پر مغرب کی طرف سے تحریری ردعمل روس کی توقعات سے کم تھا۔
ٹیلی فون کال بعد کریملن سے جاری بیان کے مطابق: ’صدر پوتن نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کے ردعمل میں نیٹو میں توسیع کے عمل کو روکنے سمیت روس کے بنیادی خدشات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مغرب نے اس ’اہم سوال‘ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی قیمت پر اپنی سلامتی کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس اس ردعمل کا ’بغور جائزہ لینے کے بعد مزید اقدامات کا فیصلہ کرے گا۔
پوتن اور میکرون کی فون کال اس ہفتے پیرس میں روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد ہوئی ہے جس میں فرانس اور جرمنی بھی شریک تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان مذاکرات میں روس کی سرکاری فورسز اور روس نواز علیحدگی پسندوں کے درمیان مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مشترکہ بیان تیار کیا گیا تھا۔
انہوں نے فروری میں برلن میں نئے مذاکرات کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
ادھر پینٹاگون میں اعلیٰ حکام نے سفارت کاری پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کے پاس اب پورے یوکرین پر چڑھائی کرنے کے لیے کافی فوج اور عسکری ساز و سامان موجود ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملے نے خبردار کیا کہ اس طرح کا کوئی بھی تنازع دونوں فریقوں کے لیے ’خوفناک‘ ثابت ہو گا۔
جنرل ملے نے کہا کہ ’اگر یوکرین پر یہ (چڑھائی) کی گئی تو یہ بہت بڑی بات ہو گی اور اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔ یہ خوفناک ہوگا، بہت ہی خوفناک۔‘
لیکن امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ یوکرین میں جنگ سے اب بھی بچا جا سکتا ہے۔
آسٹن نے کہا: ’تصادم ناگزیر نہیں ہے۔ سفارت کاری کے لیے ابھی بھی وقت اور جگہ موجود ہے۔‘
آسٹن نے کہا کہ ’صدر پوتن اب بھی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس صورت حال کو تنازع میں بدلنا پڑے۔ وہ اب بھی کشیدگی کو کم کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی فوجوں کو وہاں سے ہٹانے کا حکم دے سکتے ہیں۔‘
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس نے حالیہ ہفتوں میں اس بات کی تشہیر کی ہے کہ روس یوکرین پر حملے کا بہانہ بنانے کے لیے ایک ’فالس فلیگ‘ آپریشن انجام دے رہا ہے۔
امریکہ کے اتحادی برطانیہ نے بھی اسی مہم کے تحت ایسے یوکرینی باشندوں کا نام ظاہر کیا ہے جن پر الزام ہے کہ ان کے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے روسی انٹیلی جنس افسران سے تعلقات قائم تھے۔
امریکہ نے روسی فوج کی پوزیشنز کا نقشہ بھی جاری کیا ہے اور تفصیل سے بتایا کہ ممکنہ طور پر روس ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد فوجیوں کے ساتھ یوکرین پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
علاوہ ازیں امریکہ نے یوکرین بحران کے حل کے لیے پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی فوجوں کو تیار رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے مشرقی یورپ میں مزید بحری جہاز اور لڑاکا طیارے بھیج رہا ہے۔
تاہم روس نے نیٹو کے اس اقدام کو یوکرین کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافے کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جان سٹولٹن برگ نے فوجی اتحاد کے رکن ممالک کی جانب سے حالیہ فوج کی تعیناتی کا خیرمقدم کیا۔