انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ’نسل پرستی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے اور برطانیہ سمیت مختلف ملکوں کو لازمی طور پر چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تازہ ترین تنظیم بن چکی ہے، جس نے اسرائیل پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 211 صفحات پر مشتمل رپورٹ مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ یہ’جھوٹی، تعصب پر مبنی اور یہودی مخالف ہے۔‘
اسرائیلی وزیر خارجہ یائرلاپید نے انسانی حقوق کی برطانوی تنظیم پر الزام لگایا ہے کہ وہ’دہشت گرد تنظیموں کے پھیلائے ہوئے جھوٹوں کا ذکر کر رہی ہے‘ اور’بنیاد پرست تنظیم بن گئی جو پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔‘
لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے منگل کو جاری کی گئی تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر درجے کے نسلی گروپ والا سلوک کیا جا رہا ہے اور انہیں منظم طریقے سے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کو علیحدگی، بے دخلی اور اخراج کی ظالمانہ پالیسیوں کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور کر دیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔‘
رپورٹ میں فلسطینیوں کی زمین اور جائیداد پر’بڑے پیمانے‘ پر قبضے، غیر قانونی ہلاکتوں، فلسطینیوں کی ان کی زمین سے دوسرے مقامات پر’جبری منتقلی‘ نقل و حرکت پر سخت پابندیوں، قومیت اور شہریت سے انکار کو ایسے’نظام کے اجزا قرار دیا گیا جو بین الاقوامی قانون کے تحت نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیلی حکام کا محاسبہ ہونا چاہیے تھا۔ تنظیم نے اسرائیل کے بارے میں برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر’بڑی نظر ثانی‘پر زور دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنینشل کی سیکرٹری جنرل آنیئس کالامارڈ کے بقول: ’ہمارے علم میں آیا ہے کہ اپنے زیر انتظام علاقوں میں علیحدگی، بے دخلی اور اخراج کی ظالمانہ اسرائیلی پالیسیاں واضح طور پر نسل پرستی کے مترادف ہیں۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے وہ کارروائی کرے۔‘
کالامارڈماورائے عدالت اور مقدمات کی سماعت کے بعد دی جانے والی پھانسیوں کے معاملے پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ رہ چکی ہیں۔
’دنیا میں نسل پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اوروہ ملک جو اسرائیل کو رعایتیں دے رہے ہیں اپنے آپ کو تاریخ کی غلط جانب پائیں گے۔ وہ حکومتیں جو اسرائیل کو اسلحہ اور اقوام متحدہ میں احتساب کے خلاف تحفظ دینے میں مصروف ہیں وہ نسل پرستانہ نظام کی حمایت کر رہی ہیں جس سے عالمی قانون کو نقصان پہنچے گا اور فلسطینی عوام کی مشکلات بڑھیں گی۔‘
رپورٹ کی اشاعت سے ایک دن پہلے بظاہر اس کے افشا ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی وزارت خارجہ نے رپورٹ کو’جھوٹا‘ اور’انتہاپسند‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی اور کہا ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے’مجرموں اور دوسرے افراد کو سبز بتی دکھائی گئی کہ وہ نہ صرف اسرائیل بلکہ دنیا بھر میں یہودیوں کو نقصان پہنچائیں۔‘
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر زور دیا کہ وہ رپورٹ عام ہونے سے پہلے اس واپس لے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’ریاست اسرائیل ان تمام جھوٹے الزامات کو مسترد کرتی ہے جو اس رپورٹ میں لگائے گئے ہیں جس کے بارے میں امید ہے ایمنسٹی اسے کل شائع کرے گی۔‘
’یہ رپورٹ ان جھوٹوں، تضادات اور بے بنیاد دعووں کو تقویت فراہم کرتی اور پھیلاتی ہے جن کا تعلق اسرائیل کی مخالف اور نفرت پھیلانے والی جانی پہچانی تنظیموں کے ساتھ ہے۔ اس تمام کارروائی کا مقصد ٹوٹا پھوٹا سامان نئی پیکنگ میں رکھ کر پھر سے فروخت کرنا ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلی تنظیم نہیں جس نے اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا ہے۔ حقوق کے فلسطینی گروپ اور دفاع کرنے والے طویل عرصے سے اس پر بحث کرتے آ رہے ہیں۔
جولائی 2020 میں اسرائیلی تنظیموں بشمول ‘بتسیلم‘ اور’ییش دین‘ کی شائع کردہ رپورٹس اور قانونی آرا میں بھی اسی قسم کے الزامات لگائے گئے۔ اپریل میں ہیومن رائٹس واچ پہلا بڑا بین الاقوامی حقوق گروپ بن گیا جس نے یہ نتیجہ نکالا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا سلوک نسل پرستی کے مترادف ہے۔
نسل پرستی کا نظام ایک نسلی گروہ کا دوسرے گروہ پر جبر اور تسلط کا منظم طریقہ کار ہے۔ عالمی فوجداری قانون کے مطابق وہ مخصوص غیر قانونی کارروائیاں جو نسل پرستی کے نظام کے اندر رہ کر اور اس نظام کو برقرار رکھنے کی نیت سے کی جاتی ہیں انسانیت کے خلاف نسل پرستی کا جرم بنتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات جن میں غیر قانونی ہلاکتیں، تشدد، جبری منتقلی اور بنیادی حقوق اور آزادیوں سے انکار شامل ہے، انہیں نسل پرستی کے خلاف معاہدے اور روم دستور میں بیان کیا گیا ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر غلبہ پا لیا تھا۔ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر فوری قبضہ کر لیا جسے 1980 میں اسرائیل میں ضم کر دیا گیا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی۔
غزہ جہاں 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں، 2005 میں اسرائیل نے وہاں سے فوج اور آبادکاروں کو واپس بلا لیا تھا لیکن دو سال بعد عسکریت پسند تنظیم حماس جسے برطانیہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، تشدد کے ذریعے اقتدار میں آ گئی جس پر اسرائیل نے غزہ کی سخت ناکہ بندی شروع کر دی۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اب تقریباً پانچ لاکھ یہودی آباد کار ایسے بستیوں میں مقیم ہیں جنہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق اسرائیل اب بھی 430 میل طویل باڑ اس علاقے کے اندر اور ارد گرد پھیلا رہا ہے۔ اسرائیل نے ’فلسطینی برادریوں کو فوجی علاقوں میں الگ تھلگ کر دیا ہے۔‘
گذشتہ چند سالوں کے دوران اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کئی بار دھمکی دی کہ وہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو باضابطہ طور پر اسرائیل میں شامل کر لیں گے یہ ایک ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ اس دھمکی نے نسل پرستی پر بحث کو ہوا دی حالانکہ تب تک اقوام متحدہ کے حکام نسل پرستی کے لفظ کا استعمال چھوڑ چکے تھے۔
منگل کی رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا ہے وہ اس نتیجے پر کیوں پہنچی۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادیاں دینے سے جان بوجھ کر انکار کرنے کے لیے متعدد اقدامات کا سہارا لیا جن میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر’ظالمانہ‘ پابندیاں، اسرائیل میں مقیم فلسطینی برادریوں والے علاقوں میں ’امتیاز پر مبنی‘ کم سرمایہ کاری اور پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے انکار شامل ہیں۔
ایمنسٹی نے یہ بھی کہا کہ اس نے اسرائیل کے اندر اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ’زبردستی منتقلی، انتظامی حراست، تشدد اور غیر قانونی ہلاکتوں‘ کو بھی دستاویزی شکل دی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنینشل برطانیہ کی چیف ایگزیکٹیو افسر ساشادیش مکھ نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ’آنکھیں بند رکھنا‘ ختم کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن کو چاہیے کہ وہ تبدیلی کے لیے اسرائیل کے ساتھ اپنے مضبوط سفارتی تعلقات استعمال کرے۔ انہوں نے برطانیہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو فوجی اور پولیس کے لیے امداد معطل کر دے۔ دیش مکھ کے بقول: ’جب انسانی حقوق کے معاملے میں اسرائیل کے شرمناک ریکارڈ کی بات ہوتی ہے، برطانیہ بڑے عرصے سے غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔‘
دیش مکھ کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کو تمام اسرائیلی بستیوں سے مصنوعات کی درآمد پر جامع پابندی لگا دینی چاہیے اور کھدائی کے استعمال ہونے والی مشینوں کی برآمد روک دے کیونکہ وہ مکانات کے غیر قانونی انہدام سے جڑے ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’(برطانیہ کو چاہیے کہ وہ) اسرائیل کو فوجی اور پولیس کے لیے امداد فوری طور پر معطل کر دے۔
کالامارڈ نے بھی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو’نسل پرستی کا نظام‘ لازمی طور پر ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ’انصاف کے لیے بہت سے راستے اختیار کرے۔ شرم کی بات ہے یہ راستے ابھی تک ڈھونڈے نہیں گئے۔‘
© The Independent