اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کی سپیشل فورسز نے جمعرات (تین فروری) کو شمالی شام کے ایک گاؤں میں ایک رہائشی عمارت میں چھپے ہوئے دولت اسلامیہ (داعش) کے رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القرشی کو پکڑنے کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے چھاپے کی بار بار مشق کی۔
لیکن اس سے پہلے کہ اس فوجی آپریشن میں فورسز ان تک پہنچ پاتیں، ابو ابراہیم الہاشمی القرشی (جن کا اصل نام حاجی عبد اللہ یا امیر محمد سعید عبدالرحمٰن المولا بتایا جاتا ہے) نے ایک خودکش بم دھماکہ کیا، جس کے نتیجے میں ان سمیت دیگر لوگوں کے جسمانی اعضا عمارت کے باہر بکھر گئے۔
صدر جو بائیڈن، جنہوں نے وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم سے فوجی کارروائی کی نگرانی کی، ابو ابراہیم القرشی کی خودکشی کو ’مایوس بزدلی کا آخری عمل‘ قرار دیا۔
یہ دھماکہ ان کے پیشرو اور داعش کے بانی ابوبکر البغدادی کی طرف سے کیے گئے ایک خود ساختہ بم دھماکے جیسا تھا، جو انہوں نے شام میں 2019 میں امریکی حملے کے دوران کیا تھا۔
شامی صوبے ادلب کے گاؤں آتمے، جہاں یہ فوجی کارروائی کی گئی، کے رہائشیوں کے لیے یہ واقعات خوفناک تھے، کیونکہ ہیلی کاپٹروں میں سوار امریکی افواج نے مذکورہ عمارت سے شہریوں کو نکالنے کی کوشش کی اور لاؤڈ سپیکرز کا استعمال کرتے ہوئے انہیں وہاں سے نکل جانے کا کہا۔
ایک خاتون نے امریکی فوجیوں کی جانب سے کیے گئے اعلانات کو یوں بیان کیا: ’مرد، عورتیں اور بچے اپنے ہاتھ اوپر کرلیں۔ آپ امریکی اتحاد کی حفاظت میں ہیں، جو اس علاقے کو گھیرے ہوئے ہے۔ اگر آپ باہر نہیں نکلے تو آپ مر جائیں گے۔‘
امریکی جنرل فرینک میک کینزی، جو خطے میں امریکی افواج کی نگرانی کرتے ہیں اور بائیڈن کو اپ ڈیٹ فراہم کر رہے تھے، نے کہا کہ امریکی فوجیوں نے چار بچوں سمیت چھ شہریوں کو عمارت کی پہلی منزل سے باہر نکلنے کے لیے کہا۔
میک کینزی نے کہا: ’وہ دھماکا ایک خودکش جیکٹ کے مقابلے میں توقع سے کہیں زیادہ زوردار تھا، جس نے تیسری منزل پر موجود ہر شخص کو ہلاک کر دیا اور درحقیقت کئی لوگوں کو عمارت سے باہر پھینک دیا۔‘
میک کینزی نے مزید بتایا کہ اس واقعے میں القرشی ، ان کی بیوی اور دو بچے ہلاک ہوئے۔
ایک دوسرے امریکی اہلکار نے بعدازاں کہا کہ القرشی کی دو بیویاں اور ایک بچہ مارا گیا۔
میک کینزی نے بتایا: ’جیسے ہی امریکی فوجی دوسری منزل کی طرف بڑھے، القرشی کے ایک لیفٹیننٹ اور ان کی بیوی نے امریکیوں پر فائرنگ شروع کر دی اور وہ مارے گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہاں ایک بچہ مردہ پایا گیا اور تین دیگر بچوں اور ایک شیر خوار کو دوسری منزل سے محفوظ مقام پر لایا گیا۔‘
شامی امدادی کارکنوں نے بتایا کہ واقعے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کے مطابق کارروائی کے وقت القرشی کی دوسری اہلیہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ گھر کی پہلی منزل پر تھیں جبکہ داعش سربراہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ گھر کی دوسری منزل پر موجود تھے۔ امریکی فوج کے کمانڈو یونٹ نے داعش کے سربراہ کی گرفتاری کے لیے اطراف میں اتر کر ایک مترجم کے ذریعے مطالبہ کیا کہ گھر میں موجود تمام بچے، عورتیں اور مرد باہر آ جائیں۔
اس مطالبے کے جواب میں حفصہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ عمارت کے سامنے والے دروازے سے باہر آ گئیں۔ تاہم جب انہوں نے امریکی اسپیشل فورس کے اہل کاروں کو دیکھا تو واپس پلٹ گئیں اور خود کو چھوٹے بچوں کے ساتھ دھماکے سے اڑا دیا۔
اس کے کچھ دیر بعد داعش کے سربراہ نے بھی پہلی بیوہ کے ہمراہ خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ ابو ابراہیم الہاشمی القرشی اور دیگر افراد کی لاشیں اطراف کی سڑکوں پر جا گریں۔
دوسری جانب پینٹاگون نے کہا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ ایک مقامی تنظیم کے کم از کم دو مسلح ارکان امریکی ہیلی کاپٹر کی فائرنگ سے اس وقت مارے گئے جب وہ چھاپے کے مقام کے قریب پہنچے جبکہ امریکی فوجی ابھی بھی اس مقام پر موجود تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی حمایت یافتہ ایس ڈی ایف کے میڈیا آفس کے سربراہ فرہاد شامی نے کہا تھا کہ اس کارروائی میں ’سب سے خطرناک بین الاقوامی دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
تیسری منزل کا ہدف
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ القرشی کی موت اس گروہ کے لیے ایک اور دھچکا ہے جو کبھی شام اور عراق میں خود ساختہ خلافت کا دعویدار تھا۔
حکام نے بتایا کہ آپریشن کی منصوبہ بندی دسمبر کے اوائل میں شروع ہوئی، جب حکام کو یقین ہو گیا کہ داعش کا رہنما عمارت میں رہائش پذیر ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ صدر بائیڈن کو القرشی کو زندہ پکڑنے کے آپشنز پر 20 دسمبر کو تفصیلی بریفنگ ملی۔
ایک عہدیدار نے کہا: ’یہ کارروائی اس حقیقت کی وجہ سے پیچیدہ تھی کہ القرشی نے عمارت کی تیسری منزل پر اپنی رہائش گاہ کو شاذ و نادر ہی چھوڑا اور بیرونی دنیا سے بات چیت کے لیے کوریئرز پر انحصار کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں بچوں کی تعداد اور خاندانوں کے بارے میں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پہلی منزل پر رہائش پذیر تھے، کے باعث امریکی حکام نے ایک مشن تیار کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ بالآخر اس کے لیے امریکی افواج کو ایک چھاپے کے ذریعے خطرے میں ڈالنے کی ضرورت تھی، بجائے اس کے کہ دور دراز سے حملہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ شہری ہلاکتوں سے بچاؤ کے لیے امریکی فوجی طریقہ کار کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کے دوران کابل میں غلطی سے ہونے والے ایک ڈرون حملے میں بچوں سمیت 10 افراد مارے گئے تھے۔
پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ آتمے حملے سے متعلق تمام معلومات کا جائزہ لے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی افواج کے ہاتھوں کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ اب تک کے تمام اشارے یہ ہیں کہ شہری ہلاکتیں خود دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی وجہ سے ہوئیں۔
امریکی حکام نے بتایا کہ بائیڈن نے منگل کو اوول آفس میں سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن اور جنرل مارک ملی کے ساتھ ملاقات کے دوران مشن کے لیے حتمی منظوری دی، جو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین کی حیثیت سے اعلیٰ امریکی فوجی افسر ہیں۔
حکام نے بتایا کہ بائیڈن، نائب صدر کمالہ ہیرس اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں کو آسٹن، ملی اور میک کینزی سے اصل وقت کی اپ ڈیٹس موصول ہوئیں جب انہوں نے سچویشن روم سے کئی سکرینوں پر آپریشن کو سامنے سے دیکھا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بائیڈن، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ فون کال ختم کرنے کے بعد شام پانچ بجے کے قریب سچویشن روم میں موجود گروپ میں شامل ہوئے۔
پینٹاگون نے کہا کہ ایک موقع پر، چھاپے میں شامل ایک ہیلی کاپٹر میں میکانکی خرابی ہوئی اور اسے پیچھے چھوڑنے کے بجائے تباہ ہونا پڑا۔
آپریشن کے دوران بائیڈن نے کہا: ’خدا ہمارے فوجیوں پر رحم کرے۔‘
وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے بتایا کہ ایک بار جب امریکی افواج محفوظ ہوگئیں تو صدر بائیڈن نے 2015 میں کیے گئے ایک فضائی حملے کو یاد کیا، جب وہ نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور اس حملے میں دولت اسلامیہ کے ایک رہنما ہلاک اور القرشی زخمی ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔
مارک ملی نے بائیڈن کو بتایا کہ امریکی افواج نے القرشی کی لاش دیکھی اور واپسی کی پرواز کے دوران فنگر پرنٹ سے لیے گئے بائیو میٹرک ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس کی شناخت کی تصدیق کی۔
وائٹ ہاؤس عہدیدار نے مزید کہا کہ انہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ مکمل ہونے تک اس کی موت کا اعلان کرنے کا انتظار کیا۔ ’وہ مہم کے ابتدائی دنوں سے ہماری ٹارگٹ لسٹ میں شامل تھا۔ وہ بغدادی کا دایاں بازو تھا اور ذاتی طور پر دولت اسلامیہ کے کچھ بدترین مظالم کا ذمہ دار تھا۔‘