دریائے کنہار کے کنارے بننے والا ڈیم سُکی کناری پاکستان چین اقتصادی راہداری کا اہم اور بڑا منصوبہ ہے۔ جس سے یومیہ 884 میگا واٹ بجلی بنائے جائے گی، جس سے ایک تخمینے کے مطابق اس بجلی سے ایک کروڑ 30 لاکھ گھر مستفید ہو سکیں گے۔
اس پروجیکٹ کے لیے پہاڑوں کا سینہ کاٹ کر 30 کلومیٹر لمبی سرنگ نکالی گئی ہے جہاں سے پانی کو موڑ کر پائپوں کی مدد سے پاور ٹربائنوں تک لایا جائے گا اور بجلی بنائی جائے گی۔ یہ ناران سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر بننے والے اپنی نوعیت کے منفرد اور انتہائی دشوار گزار پہاڑوں میں بننے والا بجلی کا منصوبہ ہے۔ اس کو ’رن آف دا ریور‘ پروجیکٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ ڈیم تخلیق نہیں ہوا بلکہ قدرتی بہتے دریا کنہار کے 38 کلومیٹر رقبے پر توانائی منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، جو پلدراں سے شروع ہو کر کاغان میں پارس کے مقام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس دورے کا مقصد بظاہر یہ بھی تھا کہ میڈیا کے نمائندے خود دیکھ سکیں کہ سی پیک کے منصوبوں کے بند ہونے کے بارے میں جو قیاس آرائیاں اور افواہیں پھیلائی جاری ہیں ان میں کتنی صداقت ہے۔
سی پیک یعنی پاکستان چین اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبے چین نے پاکستان میں شروع کیے جس میں چینی انجینیئر اور عملہ بھی مصروف عمل ہے۔ کاغان میں دریائے کنہار کے چلتے پانی پر یہ منصوبہ سنہ 2017 میں شروع کیا گیا جسے پانچ برس گزر چکے ہیں جبکہ جی او سی سکیورٹی ڈویژن میجر جنرل کامران نذیر ملک نے ڈیم پروجیکٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’سکی کناری توانائی منصوبے پر 83 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، باقی 17 فیصد پر کام تیزی سے جاری ہے۔ آئندہ برس یہ منصوبہ مکمل ہو کر نیشنل گرڈ کا حصہ بن جائے گا۔‘
میجر جنرل کامران نذیر ملک نے کہا کہ 'سکی کناری منصوبے سمیت سی پیک کے تمام منصوبوں اور غیر ملکی عملے کی سکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان آرمی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’سُکی کناری کاغان میں سکیورٹی کا منظم اور جامع نظام مرتب کیا گیا ہے جس میں آرمی، پولیس، رینجرز اور ایف سی کے جوان فوج کے زیر نگرانی اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔‘
اس حوالے سے منصوبے کے پروجیکٹ مینیجر اسد بھٹی جو 2016 سے اس پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 'اس منصوبے کی لاگت دو ارب ڈالر ہے۔ یہ منصوبہ مکمل ہونے کے تیس برس بعد یہ بلا معاوضہ حکومت پاکستان کی ملکیت بن جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبے میں مقامی آبادی کو روزگار کے بڑے مواقع ملے ہیں تقریباً چھ ہزار کے لگ بھگ مقامی ہنر مند اس منصوبے سے منسلک ہیں اور منصوبہ مکمل ہونے کے بعد مزید روزگار بڑھے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پاور ہاؤس ڈیم سے 25 کلومیٹر دور واقع ہے جہاں چار ٹربائنیں لگی ہیں جن سے بجلی پیدا ہو گی۔ اس سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔‘
منصوبے میں صرف پاکستانی ہنرمند اور انجینیئروں ہی نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں چینی عملہ بھی موجود ہے، جنہوں نے سنہ 2016 میں پاکستان آ کر سب سے پہلے منصوبے کے مقام پر اپنی رہائش گاہیں تیار کیں جو فائبر شیٹ سے بنائی گئی ہیں۔ تین منزلہ فائبر شیٹ سے تیار کردہ کثیر عمارتیں دریائے کنہار کے کنارے پر کھڑی ہیں جہاں چینی عملہ اور پاکستانی ماہرین بھی رہائش پذیر ہے۔
اتنا مشکل کام کرتی خواتین پہلی بار دیکھیں
وہاں رہنے والے ایک پاکستانی ہنرمند نے بتایا کہ چینی کمپنی کے حکام بہت اچھا خیال رکھتے ہیں جہاں خود رہتے ہیں ہمیں بھی وہیں پہ رہائش دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان کئی منزلہ عمارتوں کے اندر کیفے ٹیریا، جم، فروٹ مارکیٹ کے ساتھ چینی دکانیں بھی موجود ہیں جہاں سے چینی عملہ اپنی ضرورت کی اشیا خریدتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ منصوبے کے مقام پر ابتدا میں جو مختلف پل بنائے گئے ہیں ان میں چینی خواتین کا بڑا کردار رہا ہے جنہوں نے پل کی بنیادیں سو فٹ زیر زمین بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اتنا مشکل کام خواتین کو کرتے پہلے بار دیکھا ہے۔‘
ہم نے بھی فائبر سے بنے ایک کمرے کا دورہ کیا تو دیکھا کہ سخت موسم اور منفی درجہ حرارت کے باوجود کمرے کے اندر کا ماحول بجلی کے ہیٹر کی مدد سے گرم تھا۔ یہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ باہر کئی فٹ برف پڑی ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین سے سنہ 2016 میں پاکستان آنے والی ہیومن ریسورس خاتون مینیجر یانگ بین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ابتدا میں ہی پاکستان آ گئی تھیں چونکہ وہ ایچ آر میں ہیں اس لیے منصوبے کے لیے پاکستانی عملے کے انٹرویو کرنے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستانی عملہ بہت محنتی ہے اور انہیں اُن کے ساتھ کام کر کے بہت اچھا لگا۔‘
اپنے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں پر اکیلے رہنے کا تجربہ اس لیے اچھا ہے کہ تنخواہ بہت اچھی ہے اور اس کے علاوہ اب پاکستان انہیں دوسرا گھر محسوس ہوتا ہے اس لیے چینی نیا سال بھی انہوں نے ادھر منایا۔
سکی کناری سے بجلی کی کل پیداوار میں کتنا اضافہ ہو گا؟
اکنامک سروے 2021-20 کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار 37 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے، جس میں سے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا حصہ 9874 میگاواٹ یعنی 26 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ایل این جی سے 7300 اور فرننس آئل سے 6200 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، جب کہ بقیہ حصہ کوئلے، قدرتی گیس، سولر، ہوا، اور دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جاتا ہے۔
سکی کناری منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں پانی سے بننے والی بجلی کے ذخائر میں تقریباً نو فیصد کا اضافہ ہو جائے گا جس سے فرنس آئل اور ایل این جی جیسے مہنگے ذرائع پر انحصار میں کمی آئے گی۔
دریائے کنہار کی تاریخ کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق کنہار دو لفظوں کا مجموعہ ہے کوہ یعنی پہاڑ، نہار یعنی نہروں کی جمع۔ واضح رہے کہ دریائے کنہار پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع وادی ناران کی لولو سر جھیل سے شروع ہوتا ہے جو ملکہ پربت، جھیل سیف الملوک، مکڑا چوٹی، اور وادی کاغان سے قدرتی آبشاروں کا پانی سمیٹتا ہوا دریائے جہلم میں آن ملتا ہے۔ دریائے کنہار ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کے لیے بھی مشہور ہے۔
دریائے کنہار سے نو جھیلیں منسلک ہیں اور اب ایک اور جھیل سُکی کناری کے مقام پر بھی توانائی کے منصوبے کے ساتھ بنائی جا رہی ہے۔ اس دریا کی مکمل طوالت 166 کلومیٹر ہے۔ جس میں سے اب 48 کلومیٹر کے رقبے پر توانائی کا منصوبہ لگایا جا رہا ہے۔
بالا کوٹ سے کاغان ناران اور بابو سر ٹاپ تک جاتی سڑک دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ گزرتی ہے۔ وادیِ کاغان کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں ملکی اور غیر ملکی سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔