مسئلہ فلسطین: اسرائیل کا اقوام متحدہ سے تعاون نہ کرنے کا اعلان

اسرائیل نے ’غیر منصفانہ طور پر تعصب‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات میں عالمی ادارے سے تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فلسطینی خواتین مظاہرین 31 جنوری 2022 کو غزہ شہر میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے اسرائیلی جیلوں میں  موجود فلسطینی قیدیوں کی حمایت میں نکالی گئی  ایک ریلی کے دوران نعرے لگا رہی ہیں (فائل فوٹو: اےا یف پی)

اسرائیل نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور اس کی سربراہ پر یہودی ریاست کے لیے ’غیر منصفانہ طور پر تعصب‘ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات میں عالمی ادارے سے تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کمیشن کی سربراہ ناوی پلے کو بھیجے گئے ایک خط میں اس سخت فیصلے نے اسرائیل اور جینیوا میں قائم اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا دیا ہے۔

اس خط میں، جس پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مندوب میرو ایلون شاہر کے دستخط ہیں، میں کہا گیا ہے کہ ’یہ میرے ملک کے لیے واضح ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ انسانی حقوق کی کونسل یا اس کے کمیشن آف انکوائری سے معقول، منصفانہ اور غیر امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔‘

کونسل نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان 11 روزہ جنگ کے چند دن بعد یعنی گذشتہ سال مئی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔

اس لڑائی میں خواتین اور بچوں سمیت 260 سے زائد فلسطینی مارے گئے تھے جب کہ اسرائیل میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس وقت انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے کہا تھا کہ اسرائیلی کارروائیاں جن میں شہری علاقوں میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔

اس کے بعد سے ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیلی حملوں کو جنگی جرائم  قرار دیا ہے۔

 بیچلیٹ اور ایچ آر ڈبلیو دونوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی شہروں پر حماس کی جانب سے اندھا دھند راکٹ داغے جانا بھی جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اسرائیل نے حماس کو عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گروپ عسکری سرگرمیوں کے دوران رہائشی علاقوں کو پناہ کے لیے استعمال کرتا ہے اور گنجان شہری علاقوں سے اسرائیل پر کئی راکٹ فائر کیے گئے۔

لیکن کونسل کے کمیشن آف انکوائری کی ذمہ داریوں میں غزہ جنگ کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کے خلاف بدسلوکی کی تحقیقات کرنا بھی شامل ہے۔ کمیشن کو اسرائیل، غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ یہ ایسا پہلا کمیشن ہے جس کے پاس اس طرح کا ’موجودہ‘ مینڈیٹ ہے۔

اسرائیل طویل عرصے سے اقوام متحدہ اور خاص طور پر انسانی حقوق کونسل پر اسرائیل کے خلاف تعصب رکھنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کے انسان حقوق کا ریکارڈ کونسل کے ہر اجلاس میں زیر بحث آتا ہے۔ اسرائیل نے کونسل کی تشکیل کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کا خود انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب ہے یا وہ اسرائیل کے خلاف کھلی دشمنی رکھتے ہیں۔ 47 رکنی کونسل میں چین، کیوبا، اریٹیریا، پاکستان، وینزویلا اور متعدد عرب ممالک شامل ہیں۔

اسرائیل نے جنگ کے دوران اپنے طرز عمل اور فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی بارہا مسترد کیا ہے۔

دا ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ دشمنی سے متاثر ہے اور اسے ’غیر قانونی ریاست قرار‘ دینے کی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے۔

ایلون شاہر نے خط میں لکھا: ’یہ کمیشن آف انکوائری یقینی طور پر اسرائیل کو ’شیطانی ریاست‘ ظاہر کرنے کی کوششوں کا ایک اور افسوسناک باب ہے۔‘

خط میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کو ذاتی طور پر نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ کی ایک سابق جج پلے نے اسرائیل کو نسلی عصبیت رکھنے والی قوم قرار دینے کے ’شرمناک‘ عمل اور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی قیادت میں بین الاقوامی بائیکاٹ تحریک کی حمایت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیلی سفیر 29 دسمبر کو پلے کی جانب سے اسرائیل کی حکومت کے نام بھیجے گئے ایک خط کا جواب دے رہی تھیں، جس میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے بعد ظاہر کیے گئے ’اپنے عدم تعاون کے موقف پر نظر ثانی کرے۔‘

پلے نے لکھا تھا کہ کمیشن کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس دورے کے لیے مارچ کے آخری ہفتے میں درخواست بھی دی گئی تھی جس کے تحت کمیشن  کے چھ سے آٹھ عملے نے سفر کی کوشش کی۔

اسرائیلی سفیر نے خط میں کہا کہ کمیشن اس طرح کی رسائی یا اسرائیلی حکومت کا تعاون حاصل نہیں کر پائے گا۔

پلے کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وہ جو ’الزام‘ لگاتی ہیں وہ ’اسرائیل مخالف تعصب‘ ہے۔

مثال کے طور پر 2017 میں ایک انٹرویو میں انہوں نے نسلی عصبیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ نسلی بنیادوں پر لوگوں کو جبری طور پر تقسیم کرنا ہے اور یہ اسرائیل میں ہو رہا ہے۔‘

پلے نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اسرائیل کی حکومت ماضی میں نسلی عصبیت رکھنے والے جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے درمیان موازنے پر ناراض ہے۔‘

پلے نے اپنی تقرری کے بعد سے سامنے آنے والے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کا عوامی طور پر کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔

کمیشن نے جمعرات کو اے پی کو ایک ای میل میں اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے اراکین عوامی طور بیانات دینے اور نہ ہی متعلقہ فریقوں کے درمیان ان کی بات چیت کو عام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تاکہ ان کے کام کی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا