یوکرین میں فوج بھیجنے کا کوئی منصوبہ نہیں: نیٹو سیکریٹری جنرل

دوسری جانب برطانیہ نے نیٹو کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ برطانیہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیٹو میں نہ ہونے کے باوجود وہ یوکرین کی مدد کریں گے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے جمعرات کو کہا کہ نیٹو کے پاس یوکرین کے اندر کوئی فوجی نہیں اور نہ ہی بھیجنے کا کوئی منصوبہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جینز سٹولٹن برگ نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا: ’ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے پاس یوکرین میں نیٹو فوجی تعینات کرنے کا کوئی منصوبہ اور ارادہ نہیں۔

’ہم نے واضح کیا ہے کہ ہم پہلے ہی بڑھ چکے ہیں اور ہم نیٹو کی سرزمین پر اتحاد کے مشرقی حصے میں نیٹو فوجیوں کی موجودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘

یوکرین مغربی دفاعی اتحاد کا شراکت دار ہے لیکن نیٹو کا رکن نہیں۔


کیئف میں کرفیو کا اعلان

یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں مقامی وقت کے مطابق رات 10:00 سے صبح 7:00 بجے تک کرفیو کا اعلان کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کیئف کے میئر ویٹالی کلٹسکو نے جمعرات کو کرفیو کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کرفیو کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ بند رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ میٹرو سٹیشن بم شیلٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے ہر وقت کھلے رہیں گے۔


ہسپتال پر روسی گولے لگنے سے چار ہلاکتیں

روئٹرز نے مقامی یوکرینی قیادت کا حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ روسی فورسز نے دونیتسک کے علاقے میں ہسپتال کو نشانہ بنایا، جس سے چار افراد ہلاک ہوگئے۔

روس کے مقامی میڈیا کے مطابق دونیتسک کے علاقے ووہلیدار میں روسی فوجی گولے ایک ہسپتال سے ٹکرائے جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور 10 شہری زخمی ہو گئے۔


یوکرینی فوج کا طیارہ گر کر تباہ، پانچ افراد ہلاک

یوکرین کی مسلح افواج کا ایک طیارہ دارالحکومت کیئف کے علاقے میں گر کر تباہ ہونے سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔

یوکرین کی وزارت داخلہ نے ٹویٹ کر کے بتایا کہ مسلح افواج کا ایک فوجی طیارہ جس میں 14 افراد سوار تھے، طیارہ اوبوچیو ضلع کے گاؤں ژوکیوتسی اور ٹریپیلیا کے درمیان گر کر تباہ ہوا۔ طیارہ گرنے کے بعد آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

یوکرین کی سٹیٹ سروس فار ایمرجنسی نے واقعے کی جگہ سے ایک تصویر شائع کی۔ سروس کے مطابق واقعے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔

ہنگامی حالات کی سروس نے بتایا کہ طیارے میں مجموعی طور پر 14 افراد سوار تھے اور تمام ہلاکتیں طیارہ گرنے کے بعد لگنے والی آگ سے ہوئیں۔


روسی حملے کے پہلے ایک گھنٹے میں کم از کم 40 ہلاکتیں ہوئیں: یوکرین

یوکرین کے مطابق جمعرات کو روسی فوج کے حملے شروع ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر کم از کم 40 ہلاکتیں ہوئیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق یہ بات یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی کے ایک مشیر نے بتائی۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق  صدر ولودی میر زیلنسکی کے مشیر اولیکسی آرسٹیووچ نے جمعرات کو بتایا کہ کئی درجن افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ہلاک ہونے والوں میں عام شہری بھی شامل ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب صدر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ دشمن کو جنگ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر زیلنسکی نے جمعرات کو اپنی شہریوں سے کہا کہ جو روسی افواج کے خلاف ملکی دفاع کے لیے لڑنا چاہتا ہے اسے ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔

روس نے جمعرات کو زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے یوکرین پر ہمہ گیر حملہ کیا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں ایک ریاست کا دوسری ریاست کے خلاف سب سے بڑا حملہ ہے۔

صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین نے حملے کے بعد روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں۔


یوکرین کا ساتواں روسی طیارہ مار گرانے کا دعویٰ

یوکرین کی فوج نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں ساتویں روسی فوجی طیارے کو مار گرانے کا دعوی کیا ہے۔

’مشترکہ افواج نے ابھی ابھی لوہانسک کے علاقے میں روسی فضائیہ کا ایک اور طیارہ مار گرایا ہے۔ یہ قابضین کا ساتواں طیارہ ہے جسے یوکرین کے فضائی دفاعی یونٹس نے آج مار گرایا۔ حملہ آوروں کو مسلسل نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔‘

ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے ابھی تصدیق نہیں ہوئی۔


 


برطانیہ نے نیٹو کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے جمعرات کو روس کے یوکرین حملے کے جواب میں نیٹو کے سربراہ اجلاس کا فوری مطالبہ کرتے ہوئے اسے ’ہمارے براعظم کے لیے تباہی‘ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بورس جانسن نے ٹویٹ کیا کہ ’میں نیٹو کے تمام رہنماؤں سے جلد از جلد فوری ملاقات کا مطالبہ کر رہا ہوں اور اس بات کی تصدیق کر رہا ہوں کہ میں جمعرات کو برطانوی عوام سے خطاب کروں گا۔

برطانیہ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیٹو میں نہ ہونے کے باوجود وہ یوکرین کی مدد کریں گے۔


ترکی روسی جنگی جہازوں کے راستے بند کر دے: یوکرین کی اپیل

یوکرین نے ترکی سے باضابطہ اپیل کی ہے کہ وہ آبنائے باسفورس اور دارڈینیلس کو روسی جنگی جہازوں کے لیے بند کر دے۔

یوکرین کے سفیر واسیل بوڈنار نے انقرہ سے جاری ایک بیان میں کہا: ’اب سب سے اہم چیز یوکرین کی حمایت کرنا ہے۔ میں ترک عوام اور حکام سے یوکرین کی مدد کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

’ہم فضائی حدود کو بند کرنے، روسی جنگی جہازوں کے لیے باسفورس اور دارڈینیلس کے راستے بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک سرکاری درخواست کی گئی ہے۔‘


روس کا حملہ: یوکرین میں ’آٹھ افراد ہلاک‘

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کو یوکرین پر روسی شیلنگ سے کم سے کم آٹھ افراد ہلاک اور نو زخمی ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین کے صدر نے ملک میں مارشل لا بھی نافذ کر دیا ہے۔

روسی صدر ولادی میر پوتن نے جمعرات کو یوکرین پر حملے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے یوکرین میں مارشل کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کی وزارت داخلہ کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ روسی شیلنگ سے یوکرین میں کم سے کم آٹھ افراد ہلاک اور نو زخمی ہو چکے ہیں۔

جبکہ یوکرین کے بارڈر گارڈز کے مطابق روسی فوج حرکیو، لوہانسک اور شرنی ہیو کے علاقوں سے یوکرین میں داخل ہو چکی ہے۔

اس کے علاوہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین کا کہنا ہے یوکرینی افواج نے روس کے پانچ طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر مار گرائے ہیں جبکہ روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین کے ہوائی اڈوں اور دفاع تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں تباہ کر دیا ہے۔

یوکرین کے صدر نے فیس بک پر پوسٹ کیے جانے والے اپنے اعلان میں کہا کہ ’روس ہمارے ملک کی فوجی تنصیبات کا نشانہ بنا رہا ہے۔‘

انہوں نے یوکرین کے شہریوں پر زور دیا کہ وہ اس صورت حال سے گھبرائیں مت کیونکہ فتح یوکرین کی ہو گی۔

یوکرین کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اس بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن سے بھی بات ہوئی ہے۔

یوکرین کے وزیر خارجہ دمتریو کلیبا کا بھی اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ ’روس نے یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ یوکرین کے پر امن شہر روسی حملے کے نشانے پر ہیں۔ یہ روس کی جارحیت پر مبنی جنگ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ یوکرین اپنا دفاع کرے گا اور فتح حاصل کرے گا۔ دنیا کو پوتن کو روکنا ہو گا۔


 

یوکرین روس تنازع: مغرب کی جنگی تیاریاں کیا ہیں؟

جب یوکرین میں گذشتہ سال کے اواخر میں بحران کا آغاز ہوا تو روسی صدر ولادی میر پوتن کی حکومت نے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو اپنے مطالبات کی ایک طویل فہرست جاری کی۔

روس کا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ نیٹو روس کی سرحد سے متصل سابق سوویت بلاک ریاستوں سے اپنے تمام فوجی، سازوسامان اور ہتھیار واپس بلا لیں۔

پوتن کی جانب سے منگل کو مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں والے علاقوں پر حملے کے حکم کے 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے بعد امریکی فوج روس کی دہلیز پر مزید فائر پاور بھیج رہی ہے۔

صدر جو بائیڈن نے منگل کو ہی امریکی فوجیوں، طیاروں اور لڑاکا طیاروں کو مشرقی یورپ میں تعینات کرنے کا حکم دیا تاکہ شمالی بحر اوقیانوس معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کے اتحادیوں کو یقین دلایا جا سکے اور ماسکو کی مزید جارحیت کو روکا جا سکے۔

صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ’میں نے اپنے بالٹک اتحادیوں ایستونیا، لٹویا اور لتھوانیا کو مضبوط بنانے کے لیے یورپ میں پہلے سے تعینات امریکی افواج اور سازوسامان کی اضافی نقل و حرکت کا اختیار دے دیا ہے۔‘

روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد فوجیوں کی تعداد بڑھنے کے بعد سے وائٹ ہاؤس اور یورپی اتحادیوں نے عسکری طریقے سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

 کئی ماہ سے بائیڈن نے اصرار کیا ہے کہ امریکی فوجی یوکرین میں جو نیٹو کا اتحادی نہیں ہے، میں نہیں لڑیں گے لیکن انہوں نے یورپ کے دیگر حصوں سے امریکی افواج کو عارضی طور پر دوبارہ تعینات کرکے آس پاس کے ممالک میں دفاع کو دوگنا کیا ہے۔

تقریبا چھ ہزار امریکی فوجی پہلے ہی جرمنی، پولینڈ اور رومانیہ بھیجے جا چکے ہیں۔ پولینڈ میں 82 ویں ایئربورن ڈویژن کے ساتھ امریکی پیراٹروپرز یوکرین پر حملے کے بعد اس کی مشرقی سرحد سے فرار ہونے والے ہزاروں پناہ گزینوں کے لیے فوجی سہولیات قائم کر رہے ہیں۔

رومانیہ میں، جو جنوب میں یوکرین کی سرحد سے متصل ہے، ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل آرمی سٹرائیکر سکواڈرن جرمنی سے کسی بھی سرحدی مسئلے سے نمٹنے کی تیاری کے لیے منتقل ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ مشرقی یورپ میں فضائی دفاع کو تقویت دینے کے لئے 20 حملہ آور ہیلی کاپٹروں اور دو درجن لڑاکا طیاروں کی ایک بٹالین کی تعیناتی کا حکم دیا گیا ہے۔

اب امریکہ کے پاس یورپ میں 90 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر مشرقی یورپ سے باہر تعینات ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران بائیڈن نے پولینڈ میں امریکی زمینی فوجیوں کی تعداد دگنی سے زیادہ کر کے نو ہزار اور رومانیہ میں تقریبا دو ہزار کر دی ہے۔

بائیڈن نے منگل کو جن فورسز کا اعلان کیا ہے ان میں تقریبا 800 سروس ممبران کی انفنٹری بٹالین ٹاسک فورس شامل ہے جو اٹلی سے بالٹک خطے میں منتقل ہوئی، جرمنی سے آٹھ ایف 35 لڑاکا طیاروں سے ’نیٹو کے مشرقی حصے کے ساتھ‘ بے نام اڈوں تک، جرمنی سے بالٹک تک 20 اے ایچ-64 اپاچی ہیلی کاپٹر، اور یونان سے پولینڈ تک 12 دیگر اپاچی ہیلی کاپٹر بھیجے گئے ہیں۔

نیٹو کے مشرقی حصے میں اضافی زمینی اور فضائی افواج کی تعیناتی سے خطرات لاحق ہیں۔ 2014 میں پوتن کے جزیرہ نما کرائمیا کے ساتھ الحاق کے بعد سے امریکہ اور روس کے درمیان مواصلات محدود ہیں اور مواصلات میں کمی دونوں اطراف میں غلط تجزیوں اور فیصلوں کے امکان کو بڑھا رہی ہیں۔


یوکرین اور جنوبی روس میں پروازوں پر پابندی:

ادھر روسی صدر پوتن کے اعلان کے بعد یوکرین کی وزارت انفراسٹرکچر نے ملک بھر میں سویلین پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

وزارت کے مطابق یہ فیصلہ ’حفاظت کی غرض‘ سے کیا جا رہا ہے اور نصف شب کے بعد سے ملک بھر میں سویلین پروازوں کے لیے فضائی حدود بند ہوں گی۔

دوسری جانب روسی ایوی ایشن حکام کے مطابق روس کے جنوبی شہروں سے اڑنے والی پروازوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔


روسی صدر ولادی میر پوتن کا یوکرین میں فوجی کارروائی کا اعلان:

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی صدر نے ماسکو میں ٹیلی وژن پر اپنے مختصر خطاب میں اس فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے ’اس آپریشن میں کسی بھی قسم  کی مداخلت‘ کرنے والوں کو بھی خبردار کیا۔

ولادی میر پوتن کا اپنے اعلان میں کہنا تھا کہ ’میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جو بھی ہمارے معاملات میں مداخلت کی کوشش کرے گا یا اس سے بھی زیادہ یا ہمارے ملک کو دھمکائے گا۔ ہمارے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ روس کا رد عمل فوری ہو گا۔ ہم آپ کو ایسے  نتائج کی طرف لے جائیں گے جو آپ نے اپنی تاریخ میں کبھی  نہیں دیکھے ہوں گے۔‘

روسی صدر کے اس اعلان کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے روس کے اس اقدام کو روکنے کی اپیل کی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعرات کو یوکرین کے شہر ماریوپول اور اوڈیسا کی ساحلی بندرگاہ پر ایک سے زائد دھماکے بھی سنے گئے ہیں۔

روسی صدر کے ملٹری آپریشن کے اعلان کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’دنیا روس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گی۔‘

اپنی ٹویٹس میں امریکی صدر نے یوکرینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا ہے۔


یوکرین میں تعینات پاکستانی سفیر کا پیغام:

یوکرین میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر نوئل کھوکھر نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’میری طرف سے یوکرین میں موجود تمام پاکستانی طلبہ کو ہدایت ہے کہ آپ اپنی یونیورسٹیوں میں قیام کریں اور تعلیم پر توجہ دیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر صورتِ حال میں تبدیلی آتی ہے تو ہم نے تمام انتظامات کر رکھے ہیں اور آپ کو پہلے سے مطلع کر دیں گے۔‘


یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن کے اعلان پر نیٹو کی مذمت:

روسی صدر کے اعلان کے بعد نیٹو سربراہ جینز سٹولٹنبرگ نے بھی یوکرین پر روسی حملے کے اعلان کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے اس حملے کو ’بلااشتعال اور غیرذمہ دارانہ‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ’بےشمار‘ زندگیوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیٹو اتحادی ’روسی جارحیت پر ملاقات کریں گے اور اس کے نتائج پر بات کریں گے۔‘

نیٹو سربراہ کے علاوہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور جاپان نے بھی یوکرین پر روسی حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اپنے بیان میں جینز سٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ ’میں یوکرین پر روس کے غیرذمہ دارانہ اور بلااشتعال حملے کی سخت مذمت کرتا ہوں جس سے بے شمار شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری بار بار کی گئی تنبیہات اور سفارت کاری کی کوششوں کے باوجود روس نے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف جارحیت کا راستہ چنا ہے۔‘

ان کے بیان میں کہا گیا کہ ’یہ بین الااقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جو کہ یورو اٹلانٹک سکیورٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ میں روس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی فوجی کارروائی کو روکتے ہوئے یوکرین کی خود مختار حیثیت کا احترام کرے۔‘

سٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ ’ہم اس مشکل وقت میں یوکرین کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نیٹو اپنے اتحادیوں کی حفاظت اور دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔‘

یوکرین کی سر زمین سے متعلق امریکہ اور روس کے درمیان تناؤ تا حال جاری ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ روز (23 فروری کو) جاری ایک بیان میں یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آئندہ کچھ دنوں میں روس یورپ میں بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کر سکتا ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ روز روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں اپنے سفارت خانے کو خالی کروا لیا تھا۔

امریکہ نے بھی یوکرین میں ممکنہ روسی حملوں کے خدشات میں اضافے کا عندیہ دیا تھا۔

قبل ازیں یوکرین کی سکیورٹی اور ڈیفنس کونسل کے سیکرٹری اولیکسی دینیلوو نے ایوان کو موجودہ حالات کے متعلق بتایا تھا: ’یوکرین کے موجودہ حالات مشکل ہیں لیکن حالات قابو میں ہیں‘۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا: ’میں ایک مرتبہ پھر زور دیتا ہوں، آسان نہیں ہیں لیکن یہ بالکل ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ ہمارے تمام اتحادیوں  کی انٹیلی جنس کے مطابق، ہماری اپنی انٹیلی جنس کے مطابق، ہمارے تجزیہ کاروں کے مطابق، ملک میں اندرونی عدم استحکام کے بغیر ہمارے ملک پر قبضہ نا ممکن ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا