پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو روسی فیڈریشن کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ٹیلی فون پر گفتگو میں یوکرین کی تازہ ترین صورتحال پر پاکستان کی تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں کے مطابق کشیدگی میں کمی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔
دفتر خارجہ کے جاری بیان کے مطابق انہوں نے کثیر جہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون کے مطابق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت تنازعے کے سفارتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر خارجہ نے تنازعے کے پر امن حل کے لیے یوکرین، پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ امور کے ساتھ ہونے والے حالیہ ٹیلیفونک رابطوں سے آگاہ کیا۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ روس اور یوکرین کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات سفارتی حل تلاش کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
روسی وزیر خارجہ نے شاہ محمود قریشی کو صورت حال پر روس کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔
➖ On Pakistan’s concern at the latest situation in Ukraine, I shared need for a diplomatic solution in accordance with the relevant multilateral agreements, international law, and provisions of the UN Charter. https://t.co/VFWUJiPzgT
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) March 5, 2022
وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین سے پاکستانی شہریوں کی محفوظ اور جلد واپسی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ضمن میں روسی حکومت سے مدد اور سہولت فراہم کرنے کی درخواست کی۔
روسی وزیر خارجہ نے پاکستانی شہریوں کے محفوظ انخلا کے حوالے سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
بیان میں بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے دوران گفتگو دو طرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ نے دو طرفہ ایجنڈے اور افغانستان سمیت خطے کے اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔
بیان کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے چار مارچ، 2022 کو پشاور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے روس کی طرف سے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت پر زور دیا۔
یوکرین میں نو فلائی زون نافذ کرنے والا ملک جنگ کا حصہ سمجھا جائے گا: پوتن
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ ’کوئی بھی ملک جو یوکرین پر نو فلائی زون مسلط کرنے کی کوشش کرے گا ماسکو اسے تنازعے میں شامل سمجھے گا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی صدر نے فضائی کمپنی ایروفلوٹ کے ملازمین سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’اس سمت میں کسی بھی حرکت کو ہم اس ملک کی طرف سے مسلح تصادم میں شرکت کے طور پر تصور کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ نو فلائی زون کو نافذ کرنے کے ’نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے لیے بھیانک اور تباہ کن نتائج ہوں گے۔‘
پوتن نے ان افواہوں کو بھی مسترد کر دیا کہ روس میں مارشل نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
پوتن کا کہنا تھا کہ مارشل لا صرف ان صورتوں میں لاگو کیا جانا چاہیے جہاں بیرونی جارحیت ہو، ہمیں اس وقت اس کا سامنا نہیں ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘
دوسری جانب یوکرین پر روس کے حملے کے دسویں دن ہفتے تک روسی افواج نے کلیدی جنوبی بندرگاہ مریوپول کا محاصرہ کر لیا ہے اور یوکرین کی مضبوط مزاحمت کے پیش نظر مزید پیش قدمی کی کوشش جاری ہے۔
روس کی شدید بمباری کے باوجود دارالحکومت کیئف اور خارکیو ابھی تک یوکرین کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم روسی افواج نے جنوب میں خیرسن پر قبضہ کر لیا ہے اور علاقے کے شہری مراکز کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
ہلاکتیں
روس نے بدھ کو اعتراف کیا تھا کہ یوکرین میں 498 روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ اس نے پہلی مرتبہ ہلاکتوں کی تعداد کا اعلان کیا تھا۔
یوکرین اور مغربی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے اور یوکرین کا کہنا ہے کہ 10 ہزار کے قریب روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ نے بدھ کو کہا کہ اس نے یوکرین میں تقریباً 230 شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں، جن میں 15 بچے بھی شامل ہیں، انتباہ کیا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
مہاجرین
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق روسی حملے کے بعد سے ایک ہفتے میں تقریباً 13 لاکھ 70 ہزار مہاجرین یوکرین سے نقل مکانی کر چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ تعداد پولینڈ جا چکی ہے۔
روس کا دو یوکرینی شہروں سے انخلا کے لیے راہداری کھولنے کا اعلان
روسی وزارت دفاع نے محاصرے میں لیے گئے دو یوکرینی شہروں سے رہائشیوں کے انخلا کے لیے انسانی راہداری کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہفتے کو ان شہروں میں عارضی طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی وزارت دفاع نے کہا: ’آج پانچ مارچ ماسکو وقت کے مطابق صبح 10 بجے سے، روس خاموشی کا اعلان کرتا ہے اور ماریوپول اور ولنوواخا سے شہریوں سے انخلا کے لیے انسانی راہدادری کھولتا ہے۔‘
روسی نیوز ایجنسیوں کے مطابق وزارت کا کہنا تھا کہ پانچ گھنٹوں پر مشتمل جنگ بندی میں انسانی راہداری کی جگہ اور باہر جانے کے راستوں کے تعین پر اتفاق یوکرینی حکام کے ساتھ ہو چکا ہے۔
جنوب مشرقی یوکرین میں واقع شہر ماریوپول ایک اہم بندرگاہ ہے۔
اس سے قبل شہر کے میئر وادیم بوائیچینکو نے کہا تھا کہ کئی دنوں کے ’بے رحم حملوں‘ کے بعد روسی فوجیوں نے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
ان کے مطابق روسی فوجیوں نے شدید سرد موسم میں شہر کی بجلی، پانی، ہیٹنگ، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کو روک رکھا ہے، جس کا موازنہ دوسری عالمی جنگ میں لیننگراڈ کے محاصرے سے کیا جا رہا ہے۔
66 ہزار سے زائد یوکرینی جنگ لڑنے وطن واپس آگئے
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، یوکرینی وزیر دفاع اولیکسی رزنی کوف نے ہفتے کو بتایا کہ 66 ہزار اور 224 یوکرینی مرد بیرونی ممالک سے جنگ لڑنے وطن واپس آگئے ہیں۔
رزنی نے ایک پوسٹ میں لکھا: ’اس وقت کتنے ہی لوگ بیرونِ ملک سے واپس آئے ہیں تاکہ اپنے ملک کا دفاع کریں۔ یہ 12 مزید جنگی اور متحرک بریگیڈز ہیں! یوکرینیو، ہم ناقابل تسخیر ہیں۔‘
یوکرینی صدر نیٹو پر برہم
یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دینے کا مطالبہ مسترد ہونے کے بعد یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے نیٹو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ میں اب جو ہلاکتیں ہوں گی اس کا ذمہ دار نیٹو بھی ہوگا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرینی صدر نے ایک ویڈیو پیغام میں نیٹو کے ہونے والے اجلاس کو ’ایک کمزور اور الجھا ہوا اجلاس‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ اجلاس ’ایک ایسا اجلاس تھا جس نے ظاہر کیا کہ ہر کوئی یورپ کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو اولین مقصد نہیں سمجھتا۔‘
یوکرینی صدر نے نیٹو اجلاس میں شریک ممالک کے نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے اس میٹنگ کے دوران کیا سوچا؟ اب سے جو بھی لوگ مارے جائیں گے وہ آپ کی وجہ سے بھی مارے جائیں گے۔ آپ کی کمزوری کی وجہ سے۔ آپ کے عدم اتفاق کی وجہ سے۔‘
زیلنسکی نے یہاں تک کہا کہ ’یہ جانتے ہوئے کہ مزید فضائی حملے ہوں گے نیٹو نے جان بوجھ کر یوکرین کی فضائی حدود کو بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
زیلنسکی نے نیٹو کے اس عمل پر مزید بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ نیٹو ممالک نے خود ساختہ بیانیہ گڑھ لیا ہے کہ یوکرینی فضائی حدود کی بندش نیٹو کے خلاف روسی جارحیت کی وجہ بنے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ گذشتہ روز نیٹو ممالک کے اجلاس میں یوکرین کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بندش کا مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ ’اگر ہم ایسا کرتے تو ہم یورپ میں ایک بڑے پیمانے پر لڑی جانے والی جنگ کی جانب بڑھ جاتے جس میں مزید کئی ممالک شامل ہوتے اور انسانی المیہ مزید بڑھ جاتا۔‘
تاہم نیٹو کے اس فیصلے پر یوکرینی صدر نے جذباتی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے نو روز کی تاریکی برداشت کی ہے۔ نو روز کا برا وقت۔ یہ تاریکی اور برا وقت توقع سے تین گنا زیادہ تھا۔‘
انہوں نے نیٹو ممالک کی یاددہانی کے لیے کہا کہ ’ہم نے حملے کا جتنا ہو سکا بہترین جواب دیا۔ بدترین خطرے میں بہادری یکجہتی اور باہمی تعاون دکھایا۔‘
زیلنسکی کا کہنا تھا: ’آج نیٹو کی قیادت نے نو فلائی زون کا مطالبہ مسترد کر کے مزید یوکرینی شہروں اور دیہاتوں پر بمباری کے لیے اشارہ دے دیا ہے۔‘
’روس کا ایٹمی پلانٹ پر حملہ جنگی جرم ہے‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یوکرین میں امریکی سفارت خانے نے روس کی جانب سے یوکرینی ایٹمی پلانٹ کو نشانہ بنانے کے عمل کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔
اے پی نے یوکرین میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایٹمی گھر کو نشانہ بنانہ جنگی جرم تھا۔ پوتن کی جانب سے یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ پر بمباری کرنے سے ان کی دہشت ایک درجہ بڑھ گئی ہے۔‘
یاد رہے کہ ایک حملے میں روسی افواج نے ایٹمی پلانٹ پر گرفت حاصل کر لی تھی جس کے دوران اس میں آگ بھڑک اٹھی جس سے ایٹمی تابکاری کا خطرہ پیدا ہوا۔
یاد رہے کہ آگ پر قابو پا لیا گیا تھا اور تابکاری نہیں پھیلی۔
حکومتی نیوز چینلز پر قدغن کا جواب، روس نے فیس بک پر پابندی لگا دی
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ روس نے حکومتی حمایت یافتہ چینلز پر قدغن لگانے کی وجہ سے ملک بھر میں فیس بک پر پابندی لگا دی ہے۔
روسی میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹرز نے مزید لکھا کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، جرمنی کے نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلی (ڈی ڈبلیو) اور وائس آف امریکہ کی ویب سائٹس پر بھی ملک بھر میں پابندی لگا دی ہے کیوں کہ یوکرین جنگ کے حوالے سے غلط اطلاعات فراہم کر رہے تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ روس میں اپنا کام عارضی طور پر روک رہا ہے۔ یہ فیصلہ روس کی جانب سے ایک نیا قانون متعارف کروانے کے بعد لیا گیا جس میں جان بوجھ کر ’غلط خبر‘ چلانے پر کسی بھی شخص کو جیل بھیجا جا سکے گا۔