نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ’روس کی بمباری روکنے میں مدد کے لیے کیئف کے مطالبے کے بعد یوکرین پر نو فلائی زون نافذ نہیں کیا جائے گا۔‘
سٹولٹن برگ نے نیٹو وزرائے خارجہ کے ساتھ ہنگامی ملاقات کے بعد کہا: ’نو فلائی زون کے نفاذ کا واحد طریقہ نیٹو لڑاکا طیارے یوکرین کی فضائی حدود میں بھیجنا ہے اور پھر روسی طیاروں کو مار گرا کر اس نو فلائی زون کا اطلاق ہے۔‘
’اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم ایک ایسی صورتحال میں چلے جائیں گے جس کا نتیجہ یورپ میں ایک مکمل جنگ ہو گا جس میں مزید بہت سے ممالک شامل ہوں گے اور بہت زیادہ انسانی مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہ تکلیف دہ فیصلہ لیا۔‘
یوکرینی قیادت کی جانب سے ملک بھر کے شہروں کے خلاف بمباری روکنے میں مدد کی اپیلوں کے باوجود امریکی قیادت میں بنائے گئے اس بلاک کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری سٹولٹنبرگ نے خبردار کیا ہے کہ:’آنے والے دن مزید اموات، مزید مصائب اور مزید تباہی کے ساتھ مزید بدتر ہونے کا امکان ہے، کیونکہ روسی مسلح افواج بھاری ہتھیار لائی ہیں اور ملک بھر میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے کیئف سے ویڈیو لنک کے ذریعے نیٹو اتحاد کے اجلاس سے خطاب کیا۔
اس کے بعد انہوں نے ٹویٹ کیا: ’میرا پیغام ہے: ابھی عمل کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ (روسی صدر ولادی میر) پوتن کو یوکرین کو شام میں تبدیل نہ کرنے دیں۔ ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں. ہم لڑتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں ابھی ٹھوس، پرعزم اور برق رفتار اقدامات میں مدد کے لیے ہمارے شراکت داروں کی ضرورت ہے۔‘
نیٹو کے اراکین نے روس کے قریب ترین اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو مشرقی یورپ پہنچایا ہے اور وہ یوکرین کو اپنے دفاع میں مدد کے لیے ہتھیار بھیج رہے ہیں۔
سٹولٹنبرگ نے کہا کہ: ’ہم نیٹو کے ہر انچ کے تحفظ اور دفاع کے لیے جو کچھ کرنا پڑا، کرتے رہیں گے۔ نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد اپنے 30 ممالک کو محفوظ رکھنا ہے۔‘
’ہم اس تنازعہ کا حصہ نہیں ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ یوکرین سے آگے نہ بڑھے۔‘
یوکرین نے کہا ہے کہ اگر نیٹو ہماری فضائی حدود بند کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو اتحادیوں کو روسی فضائی حملوں کو روکنے میں مدد کے لیے جنگی طیارے اور فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے چاہئیں۔
یورپی ممالک نے اب تک کہا ہے کہ وہ طیارے نہیں بھیجیں گے اور ترسیل کیے جانے والے ہتھیاروں میں زیادہ تر ہلکے ہتھیاروں، اینٹی ٹینک اور کندھے سے داغے جانے والے اینٹی ایئرکرافٹ میزائل شامل ہیں۔
پوری دنیا ولادی میر پوتن کے خلاف ہے، یوکرینی سفیر
اقوام متحدہ میں یوکرینی سفیر نے کہا کہ روسی حملے کے بعد ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے جمعے کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں زبردست ووٹنگ سے صدر ولاد یمیر پوتن کو پتہ چلنا چاہیے کہ ’پوری دنیا آپ کے خلاف ہے۔‘
خبر رساں ایجنسی فرانس پریس ( اے ایف پی) کے مطابق یوکرینی سفیر یوہنیا فلیپنکو نے ووٹ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ولادی میر پوتن کے لیے پیغام واضح ہے کہ آپ عالمی سطح پر سب سے کٹ چکے ہیں اور پوری دنیا آپ کے خلاف ہے۔‘
یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح روسی گولہ باری کی وجہ سے یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ میں لگنے والی آگ بجھا دی گئی ہے۔
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے ماسکو پر الزام لگایا کہ وہ ’جوہری دہشت گردی‘ کا مرتکب ہے اور چرنوبل تباہی کو ’دہرانا‘ چاہتا ہے اور روسی افواج نے جان بوجھ کر جوہری پاور پلانٹ پر حملہ کیا۔
روسی افواج نے صبح یوکرین میں قائم یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ پر گولہ باری کی تھی، جس سے پلانٹ میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور خدشہ تھا کہ تباہ شدہ پاور سٹیشن سے تابکاری خارج ہوسکتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اینرودر شہر میں قائم زاپوریژیا جوہری پلانٹ کے ترجمان اینڈری ٹز نے جمعرات کی شب یوکرین کے ٹیلی ویژن کو بتایا کہ روسی فوج نے شہر میں پلانٹ پر براہ راست گولہ باری کی جس سے تنصیب کے چھ ری ایکٹروں میں سے ایک میں آگ بھڑک اٹھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ری ایکٹر مرمت کے باعث کام نہیں کر رہا تھا لیکن اس کے اندر جوہری ایندھن موجود ہے۔
یہ پلانٹ یوکرین کی بجلی کی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد فراہم کرتا ہے۔
پلانٹ کے ترجمان نے کہا تھا کہ فائر فائٹرز آگ کے قریب نہیں جا سکتے کیونکہ ان کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ترجمان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا: ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کو روکا جائے کیوں کہ یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی پلانٹ کو جوہری تباہی کا حقیقی خطرہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حملے سے خدشہ پیدا ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں یوکرین کے 15 جوہری ری ایکٹروں میں سے ایک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور 1986 کے چرنوبل حادثے کی طرح ایک اور ہنگامی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اینرودر شہر کے میئر نے پہلے کہا تھا کہ یوکرین کی افواج شہر کے مضافات میں روسی فوجیوں سے لڑ رہی ہیں۔ 50 ہزار سے زیادہ آبادی والے شہر سے ملنے والی فوٹیج میں شہر میں آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں اٹھ رہا ہے۔
یوکرین کی سرکاری ایٹمی توانائی کمپنی نے اطلاع دی تھی کہ ایک روسی فوجی دستہ جوہری پلانٹ کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں جمعرات کی شب زور دار گولیوں اور راکٹ فائر کی آوازیں سنی گئیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’روسی فوج یورپ کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹ پر چاروں طرف سے گولہ باری کر رہی ہے۔‘
انہوں نے ٹویٹ میں روسیوں سے جوہری پلانٹ پر حملہ روکنے اور فائر فائٹر کی ٹیموں کو اندر جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی۔
روس پہلے ہی یوکرین کے دارالحکومت کیئف سے تقریباً 100 کلومیٹر شمال میں واقع چرنوبل پلانٹ پر قبضہ کر چکا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے جوہری پلانٹ پر حملے کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یورپ کو اب جاگ جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ روسی ٹینک جوہری یونٹس پر گولہ باری کر رہے ہیں۔ ’یہ تھرمل امیجرز سے لیس ٹینک ہیں اس لیے وہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں حملہ کر رہے ہیں۔ وہ اس کی تیاری کر رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمیں روسی فوج کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سیاستدانوں سے مطالبہ کریں۔ یوکرین میں 15 ایٹمی یونٹس ہیں۔ اگر کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ یورپ کا خاتمہ ہو گا --- صرف یورپ کی جانب سے فوری کارروائی ہی روسی فوجیوں کو روک سکتی ہے۔ یورپ کو جوہری تباہی سے ختم ہونے سے بچائیں۔‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ پاور پلانٹ پر گولہ باری کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور صورت حال کے بارے میں یوکرین کے حکام سے رابطے میں ہے۔
یوکرین پر حملوں میں کمی نہیں آئے گی، پوتن
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق، ولادی میر پوتن یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی حملے روکنے کی درخواست کے باوجود یوکرین پر ’آخر تک‘ بمباری جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
جمعرات کو فون اور ویڈیو کالز کے ذریعے روسی صدر نے کیئف پر انسانی ڈھال استعمال کرنے اور ’نازیوں کی طرح‘ برتاؤ کرنے کا الزام لگایا، اپنے جان سے جانے والے فوجیوں کو ہیرو قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ روسی حملے’منصوبے کے مطابق‘ ہو رہے ہے۔
انہوں نے اپنی کریملن سکیورٹی کونسل کے اراکین کو بتایا کہ روس نے صرف فوجی تنصیبات پر بمباری کی ہے اور فوجیوں نے رہائشی علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔
اس دعوے کے باوجود روسی حملے کے بعد سے یوکرینی شہریوں کی لاشیں تباہ شدہ گھروں سے برآمد ہوئی ہیں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے ساتھ ایک کال میں، پوتن بین الاقوامی مذمت سے اس قدر بے خوف نظر آئے کہ فرانسیسی صدر کے رہائشی محل ایلیسی کے ایک اہلکار نے واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا: ’ہم توقع کرسکتے ہیں کہ بدترین ابھی آنا باقی ہے۔‘
اہلکار نے بتایا کہ پوتن نے ڈیڑھ گھنٹے کی کال میں اصرار کیا کہ حملے میں کوئی کمی نہیں آئے گی، اور مغرب کو تنازعے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ساتھ ہی ’کیئف پر بمباری کرنے کی تردید کی۔‘
امریکہ کا یوکرینی شہریوں کو پناہ دینے کا فیصلہ
بائیڈن انتظامیہ نے جمعرات کو امریکہ میں یوکرینی شہریوں کو انسانی مدد کی پیش کش کی جس سے ہزاروں افراد کو ان کے جنگ زدہ وطن ڈی پورٹ کرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیش کش کے تحت یوکرینی شہری ایک وفاقی پروگرام کے تحت 18 ماہ تک امریکہ میں رہ سکتے ہیں تاہم اس پروگرام کے اہل ہونے کے لیے یوکرینی شہریوں کا کم از کم منگل سے امریکہ میں موجود ہونا ضروری ہے۔
انتظامیہ نے کہا کہ یہ فیصلہ یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے کیا گیا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی فوجی کارروائی ہے۔ اس حملے نے ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے 10 لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکریٹری الیحاندروہ این میئرکاس نے کہا کہ ’روس کے یوکرین پر پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت اور بلا اشتعال حملے کے نتیجے میں ہونے والی جنگ اور غیر منطقی تشدد نے یوکرینی شہریوں کو دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔‘
مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکہ میں 30 ہزار یوکرینی شہری اس پروگرام سے مستفید ہو سکتے ہیں۔