’میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ میرا کوئی نہیں رہا۔ اب صرف نو سال کا بیٹا ہے اور وہ بھی زخمی حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ہم افغانستان سے طالبان کے ڈر اور بیٹیوں کی تعلیم کے لیے آئے تھے لیکن شوہر نے بیٹیوں کی تعلیم کے لیے جان قربان کر دی۔‘
یہ کہنا تھا کہ پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسال دار کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے محسن شاہ کی اہلیہ کا جو اپنے زخمی بیٹے اور دو بیٹیوں کو دیکھ کر زار و قطار رو رہی ہیں۔
مرضیہ اپنے شوہر اور بچوں سمیت تقریباً چار ماہ قبل افغانستان سے پشاور منتقل ہوئی تھیں تاکہ ان کی بیٹیاں تعلیم جاری رکھ سکیں۔
’میری ایک بیٹی گیارہویں جماعت میں پڑھتی ہے لیکن وہ کابل میں تعلیم پر پابندی کی وجہ سے نہیں جا سکتی تھی جبکہ دوسری بیٹی ساتویں اور باقی دو بیٹیاں نرسری اور پہلی جماعت میں پڑھتی ہیں۔ صرف بیٹے کو پڑھنے کو اجازت تھی۔‘
مرضیہ نے بتایا کہ ان کے شوہر کہتے تھے کہ ایک دو سال بعد ’ہماری بیٹیاں مڈل سے اوپر گریڈ میں جائیں گی اور اگر یہی حالات رہے تو وہ افغانستان میں تعلیم سے محروم ہو جائیں گی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے بیٹیوں کی تعلیم کے لیے پشاور جانے کا فیصلہ کیا۔‘
دھماکے میں زخمی ہونے والے امید حمید اپنے والد کے ہمراہ نماز جمعہ پڑھنے گئے تھے جہاں وہ دھماکے کی زد میں آگئے۔
امید حمید کے پاؤں اور ہاتھ فریکچر ہوئے ہیں۔ ان کی تیمارداری کے لیے ہسپتال میں موجود ان کے والد کے دوست حسن عباس نے بتایا کہ ’امید حمید کا آپریشن ہو چکا ہے اور اللہ کے کرم سے اب وہ بہتر ہے لیکن ابھی تک ہسپتال سے ڈسچارج نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے زخم ابھی بھرے نہیں۔‘
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے امید کی والدہ مرضیہ کے پاس پہنچے تو ہاتھوں میں ٹشو پیپر لیے رو رہی تھیں اور اپنی ایک سالہ بیٹی کو پیار کر رہی تھیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ افغانستان سے طالبان کے ڈر سے پشاور منتقل ہوئے لیکن یہاں بھی موت نے پیچھا نہیں چھوڑا۔
انہوں نے بتایا کہ امید کی دو بہنیں، دادا اور دادی ان کے شوہر کی لاش کے ساتھ افغانستان چلے گئے ہیں اور وہ یہاں بیٹے کے زخموں کو دیکھ کر کرب سے گزر رہی ہیں۔
افغانستان میں شیعہ ہزارہ برادری پر ماضی میں کئی حملے ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش نے حالیہ دنوں میں افغانستان کی ہزارہ برادری کو مختلف موقعوں پر نشانہ بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان حملوں میں 2021 میں قندھار اور قندوز کی شعیہ مساجد میں والے دھماکے بھی شامل ہیں جن میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ہزارہ کمیونٹی کو صرف داعش سے نہیں بلکہ ماضی میں طالبان کی جانب سے بھی نشانہ بنایا گیا۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق امید حمید کو بائیں ہاتھ اور پاؤں پر چوٹیں آئیں اور ان کا علاج جاری ہے۔
’اب گھر کا سامان لانے والا بھی کوئی نہیں رہا‘
مرضیہ نے اشک بار آنکھوں سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گھر میں اور کوئی مرد نہیں اور ان کا بیٹا ابھی نو سال کا ہے، تو گھر کا سودا لانے کے لیے بھی کوئی نہیں رہا جبکہ ابھی وہ پڑوسی کے گھر آئی ہیں کیونکہ گھر میں وہ یہ صدمہ اکیلے برداشت نہیں کر سکتیں۔
’میرے شوہر محنت مزدوری کرتے تھے اور ابھی پچھلے ہفتے ہی کابل گئے تھے۔ مجھے فون کر کے بتایا تھا کہ افغانستان میں حالات ٹھیک ہو گئے ہیں، وہ دوبارہ کابل جائیں گے لیکن نہ حالات ٹھیک ہوئے، اور اب نہ وہ اس دنیا میں رہے۔‘