مغربی طاقتوں نے منگل کو روس کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکہ اور ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے میں واپسی کے عمل کو خراب کرنے سے باز رہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار تہران میں اس معاملے پر مشاورت کر کے واپس آنے والے ہیں اور معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔
اس معاہدے کی بحالی کے لیے 11 ماہ سے جاری مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں معاشی پابندیاں اٹھانے کے آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں۔
لیکن ایسے وقت میں روس نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ضمانت دے کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں ماسکو کو نشانہ بنانے والی مغربی پابندیاں ایران کے ساتھ اس کے کاروبار کو متاثر نہیں کریں گی۔ اس مطالبے کے بعد یہ معاہدہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ روس جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں میں اپنی شرکت سے اضافی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو گا۔
امریکی سفارت کار نولینڈ نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی سماعت میں بتایا: ’روس (جوہری معاہدے) کے حوالے سے اپنے مطالبات کو آگے بڑھانے اور وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم ’چلو معاہدہ کریں‘ نہیں کھیل رہے ہیں۔‘
ایک ایرانی اور ایک یورپی عہدیدار نے بتایا کہ ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کنی بدھ کو ویانا میں واپس آنے والے ہیں جب کہ وہ پیر کو غیر متوقع طور پر مشاورت کے لیے تہران گئے تھے۔
مذاکرات کے رابطہ کار یورپی یونین کے اینریک مورا نے پیر کو کہا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مذاکرات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی فیصلے کیے جائیں۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کے نیو کلیئر واچ ڈاگ کے 35 قومی بورڈ آف گورنرز نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’موقع کی کھڑکی بند ہو رہی ہے۔ ہم تمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو ابھی مکمل کرنے کے لیے ضروری فیصلے کریں اور روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کے نتیجے میں غیر قانونی شرائط شامل نہ کرے۔‘
ایران نے تمام پابندیاں ہٹوانے کی کوشش کی ہے اور وہ امریکہ سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے واک آؤٹ کیا تھا اور دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُدھر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس نے منگل کو متنبہ کیا ہے کہ مزید تاخیر عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان بحال ہونے والے جوہری معاہدے کو روک سکتی ہے جبکہ واشنگٹن نے کہا کہ وہ ماسکو کو کچھ نہیں دے گا۔
ماسکو دیگر مغربی ممالک برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ویانا میں جاری مذاکرات میں ایک براہ راست فریق ہے جس کا مقصد پابندیوں میں ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔
واشنگٹن ان مذاکرات میں بالواسطہ طور پر شریک ہے کیوں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اضافی ضمانتوں کے لیے روس کے مطالبات کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا: ’ہم ایک معاہدے کے بہت قریب ہیں، لیکن پیرس ان خطرات کے بارے میں بہت فکر مند ہے جو مزید تاخیر کے سبب بڑھ سکتے ہیں۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے امریکہ سے تحریری صورت میں ضمانت کا مطالبہ کیا ہے کہ روس پر عائد مغربی پابندیوں کا ایران کے ساتھ معاشی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔