راولپنڈی ٹیسٹ کو ختم ہوئے کئی روز ہوگئے لیکن ایک بحث اب بھی جاری ہے۔ ٹیم مینیجمنٹ اس پر خاموش رہی لیکن جب بات زیادہ بڑھ گئی اور آسٹریلیا کی ایک ویب سائٹ نے اسے اس صدی کی بدترین پچ قرار دیا تو پھر حکومتی وزیر بھی افسوس کرتے نظر آئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نے ایک ویڈیو بیان کے ذریعے خاموشی توڑتے ہوئے اس بےجان پچ کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے پچ کی تیاری کو ’طویل دورانیے کا عمل‘ قرار دیا۔
انہوں نے الفاظ کے ہیر پھیر سے دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن یہ حقیقت بھی قبول کرلی کہ ’ہم ایک گرین پچ بنا کر میچ آسٹریلیا کی گود میں نہیں ڈال سکتے تھے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب اوپننگ بیٹنگ آرڈر ڈسٹرب بھی ہو تو تجربے نہیں کیے جاسکتے۔‘
یہی بات آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز نے بھی کہی تھی کہ اس پچ کا مقصد ہماری فاسٹ بولنگ کو صفر کرنا تھا۔ رمیز راجہ نے اعتراف کر لیا کہ مردہ پچ باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائی گئی تھی۔ وہ ویڈیو میں یقین دلاتے رہے کہ اگلےٹیسٹ میں بہتر پچ نظر آئے گی، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ پاکستانی ٹیم شاید کبھی ایسا خطرناک رسک نہیں لے گی۔
ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ایک عرصہ دراز کے بعد ایک مضبوط اور مکمل غیرملکی ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے۔ اس ملک نے ہزار دباؤ کے باوجود اپنے کسی بھی پرائم کھلاڑی کو دورے سے دور رہنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ یہ دورہ صرف اعداد وشمار کا مجموعہ نہیں بلکہ دلچسپ کھیل کا عکاس ہو۔
آسٹریلین میڈیا ہمیشہ سے پاکستان کے دوروں پر تنقید کرتا رہا ہے کیونکہ ان میں بے جان پچز اور رنز کے انبار میں کھلاڑی بوریت کا شکار رہتے ہیں۔ سابق کپتان آئن چیپل تو پاکستان سے کسی سیریز کے ہی مخالف ہیں جو اپنے ملک میں تو رنز کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور آسٹریلیا جا کر ڈھے جاتے ہیں۔
موجودہ دورے پر امید تھی کہ ایک سابق کرکٹر کے چیئرمین ہوتے ہوئے کرکٹ میں توازن نظر آئے گا، سپورٹنگ پچز ہوں گی جن پر بولرز اور بلےباز دونوں کو مساوی موقع ملے گا اور جو اچھا کھیل سکتا ہو وہ مرد میداں ہوگا۔
ایسا کیوں نہ ہوا
راولپنڈی کی پچ اپنی تاریخ اور موسم کے حوالے سے فاسٹ بولنگ کے لیے آئیڈیل رہی ہے۔ اس میں اکثر باؤنس ہوتا ہے اور گیند تیز آتی ہے۔ جب پی سی بی نے پہلے ٹیسٹ میچ کے لیے راولپنڈی کا انتخاب کیا تو کچھ حیرانی تھی لیکن وہ پہلے دن ہی ختم ہوگئی۔
آسٹریلیا نے تاریخ کو دیکھتے ہوئے چار فاسٹ بولرز رکھے جبکہ پاکستان دو فاسٹ بولرز کے ساتھ میدان میں آیا جس نے میچ شروع ہونے سے پہلے ہی بہت کچھ سمجھا دیا۔
پچ پر باؤنس تو چھوڑیں سپن بھی غائب تھا حالانکہ پاکستان ماضی میں ایسی وکٹیں بناتا رہا ہے جس پر پہلے دو دن فاسٹ بولنگ اور آخری تین دن سپن راج کرتی تھیں۔
ماضی میں راولپنڈی کی پچ پر محمد زاہد، ایلن ڈونلڈ، وسیم اکرم، وقار یونس اپنی فاسٹ بولنگ سے تباہی مچا چکے ہیں جبکہ ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد بھی کارگر رہے ہیں۔
لیکن شاید پاکستان کیمپ اگر دنیا کے سب سے خطرناک فاسٹ بولنگ اٹیک سے خوفزدہ تھا تو سپنر ناتھن لائن کا خوف بھی شاید حاوی تھا۔ بس ایک ہی علاج تھا کہ ایک بہت ہی زبردست بیٹنگ وکٹ بنا دی جائے اور چاہے پانچ دن ایک ہی ٹیم بیٹنگ کرتی رہے لیکن نتیجہ نہ نکلے۔ ایک برطانوی صارف این پونٹ نے لکھا کہ پچ سے غرض نہیں اصل بات محض دس بالیں صحیح جگہ پٹخنی ہوتی ہیں۔
Truth...#PAKvsAUS #WIvsENG pic.twitter.com/4pSVBFJHer
— Ian Pont (@Ponty100mph) March 9, 2022
تنقید کے نشتر
پچ پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تنقید کے نشتر برسائے گئے۔ کسی نے اسے ’موٹروے‘ تو کسی نے اسے ’گھر کا صحن‘ قرار دیا۔ کچھ نے سوال کیا کہ ایسی پچ سے کیا کرکٹ مقبول ہوگی جب نہ کوئی سنسنی، نہ ڈراما اور نہ ہار جیت کی کشمکش !!
اس موقعے پر آسٹریلین کرکٹر بھی بول اٹھے۔ سٹیو سمتھ نے اس میچ میں 78 رنز کی سست اننگز کھیلی لیکن انہوں نے بھی اسے ’مردہ اور بے ضرر‘ پچ قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ آخری تین دن اس پر گیند سپن ہوگی لیکن ایسا نہ ہوا اور آخری گیند تک بولرز بس وقت پورا کرتے رہے۔
ہر ناقد کا یہ سوال ہے کہ پاکستان کو اس پچ بنانے کے پیچھے کیا ڈر تھا؟ کیا وہ شکست سے خوفزدہ تھی، کیا اسے اپنی بیٹنگ اور بولنگ پر بھروسہ نہیں تھا یا وہ بلے بازوں کو اعتماد دینا چاہ رہ رہی تھی؟
پاکستان کی بیٹنگ میں اگرچہ کوئی کمی نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے پچھلے ایک سال میں صرف کمزور ٹیموں کے خلاف کرکٹ کھیلی ہے اور یہی ڈر انتظامیہ کو تھا کہ اب کینگروز کے خلاف قلعی نہ کھل جائے۔
یہ خوف نیا نہیں ہے! یہ خوف ماضی میں محمد یوسف اور انضمام الحق کو بھی لاحق رہا ہے جنہوں نے 2005 میں بھارت کے خلاف ملتان میں تیز پچ نہیں بننے دی تھی۔
اسی خوف نے راولپنڈی ٹیسٹ کی پچ کو بےجان ٹریک میں بدل دیا اور پانچ دن شائقین ایک اکتا دینے والی کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کی کوشش ہی کرتے رہے۔
شائقین نے سٹیڈیم میں دلچسپ پلے کارڈز کے ساتھ بوریت زدہ دن کو ہنسی مذاق میں بدلنے کی کوشش کی، جس کا آسٹریلین کھلاڑیوں نے دوبدو ساتھ دیا۔
کبھی ڈیوڈ وارنر ڈانس کرتے رہے تو کبھی لابوشین سوشل میڈیا پر جواب دیتے رہے لیکن پاکستانی ٹیم ان سب سے الگ تھلگ میچ کو بے جان بنانے میں مصروف رہی۔
نعمان کی چھ وکٹیں کیسے ممکن ہوئیں؟
جس پچ جس پر ناتھن لیون وکٹ کے لیے ترستا رہا اس پر نعمان علی نے بائیں ہاتھ کا کمال دکھایا اور چھ وکٹ لے اڑے۔ آخر ایسا کیسے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نعمان علی بائیں ہاتھ کے آرتھوڈوکس بولر ہیں جو بریک سے زیادہ لینتھ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر ان سپاٹ پر بولنگ کی جہاں بولرز کے سپائکس سے نشان پڑگئے تھے۔ پھر ان کی مدد آسٹریلوی بلے بازوں نے کی جو تیز کھیلنے کی کوشش میں کیچ دے بیٹھتے۔ شاید نعمان جانتے تھے کہ کینگروز میں صبر کا مادہ کم ہے اور انہوں نے اسے خوب آزمایا۔ ان کی بولنگ کی تعریف نہ کرنا البتہ بڑی ناانصافی ہوگی۔
امام الحق، عبداللہ شفیق، اظہر علی کی سنچریاں
ان تینوں کھلاڑیوں نے پچ کی سستی کا مکمل فائدہ اٹھایا اور سنچریاں داغ دیں تاہم ان تینوں کی سنچری کو صرف پچ کو ثمر قرار دینا نامناسب ہوگا کیونکہ چاہے جیسی بھی پچ ہو سنچری بنانا کمال کی بات ہوتی ہے۔ یہ آپ کے صبر اور انہماک کا پورا امتحان لیتی ہے۔
امام الحق کی دونوں اننگز میں سنچری نے ان کو تاریخ کے گنے چنے بلے بازوں میں شامل کر دیا ہے جو یہ اعزاز حاصل کرسکے ہیں۔
کیا اس پچ کا کوئی عذر قابل قبول ہے؟ شاید نہیں کیونکہ اس ٹیسٹ میچ نے پاکستان کو کسی ممکنہ فتح یا شکست سے تو دور رکھا لیکن دنیائے کرکٹ میں بزدلی کا نام دے دیا۔ اس پچ کی تیاری میں کیوریٹرز کی نااہلی کو وجہ بنانا مزید نااہلی ہوگی کیونکہ کیوریٹرز تو وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم ملتا ہے۔ کیویٹرز نے پچ پر سے گھاس بھی اڑا دی اور پچ کو بیٹنگ کے لیے سازگار بنا دیا۔
کیا اگلا ٹیسٹ بھی ایسا ہی ہوگا؟
کراچی کی پچ روایتی طور پر بیٹنگ پچ ہے لیکن ریورس سوئنگ کی وجہ سے فاسٹ بولرز کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ کراچی میں آج کل ہلکی گرمی اور موسم خشک ہے۔ سمندری رطوبت اور خشک موسم مل کر ریورس سوئنگ کے لیے آئیڈیل ہوں گے لیکن شاید اس کے لیے دو دن انتظار کرنا پڑے۔ تمام نظریں کراچی پر ہیں۔
#PAKvsAUS pitch for second test but still 48 hours left. All eyes at National Staduim pic.twitter.com/PTH2Kn1VJH
— Abdul Majid Bhatti (@bhattimajid) March 10, 2022
تاہم مہمان ٹیم باقی دو ٹیسٹ بھی ڈرا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ کپتان پیٹ کمنز نے کراچی ٹیسٹ میں کسی بہت مختلف پچ کو خارج از امکان قرار دیا البتہ وہ اب کراچی ٹیسٹ میں دو سپنرز کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کے لیے 24 سال بعد یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر سیریز کے تمام میچ اسی طرح بے جان رہے تو پاکستان کرکٹ کا بہت نقصان ہوگا اور اب تنقید کے بعد یہ بھی نہ ہو کہ کراچی میں ایسی پچ بنا دی جائے کہ میچ کا دو دن میں فیصلہ ہوجائے۔
ہار جیت کی کشمکش اور گیند اور بلے کے درمیان جنگ ہی کھیل میں دلچسپی پیدا کرتی ہے۔ باقی جیتنا اس کو چاہیے جو اس دن اچھی کارکردگی دکھاتا ہے۔