یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں
چینیوں کے بارے میں عموماً سمجھا جاتا ہے کہ وہ دیگر زبانوں بالخصوص انگریزی زبان سے نفرت کرتے ہیں اور اگر انگریزی بولنی آتی بھی ہو تب بھی نہیں بولتے۔
حقیقت اس سے مختلف ہے۔ چینی انگریزی کے بخار میں کچھ اس قدر مبتلا ہیں کہ اپنے بچوں کو دو سال کا ہوتے ہی کنڈر گارٹن چھوڑ آتے ہیں۔ دو سال کا بچہ کیا انگریزی سیکھے گا۔ استاد سے انگریزوں کے دو چار طور طریقے ہی سیکھ لیتا ہے اور والدین اسی میں خوش ہو جاتے ہیں۔
چینی اپنے بچوں کو انگریزی زبان سکھانے کے لیے لاکھوں یوآن خرچ کرتے ہیں۔ اس کے لیے بہتر سے بہتر استاد ڈھونڈتے ہیں۔ بچے کو وقت پر کلاس لینے بھیجتے ہیں۔ جب ان کا بچہ ’ہیلو،‘ ’ہاؤ آر یو،‘ ’آئی ایم ہیپی‘ بولنا شروع کرتا ہے تو انہیں اپنی محنت رنگ لاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
انگریزی تعلیم کے لیے چینیوں کی پہلی پسند امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا کے استاد ہوتے ہیں۔
چین میں قانونی طور پر انگریزی کی تعلیم صرف وہ افراد دے سکتے ہیں جن کا تعلق ایسے ممالک سے ہو جن کی زبان انگریزی ہو اور جنہوں نے انگریزی زبان سکھانے کی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔
اس قابلیت کے حامل افراد کے لیے چین کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ وہ اپنی شرائط پر کام کرتے ہیں اور کروڑوں یوآن کماتے ہیں لیکن ظاہر سی بات ہے ایسے افراد بہت کم تعداد میں ہوتے ہیں اس لیے چینی سکول اور ٹریننگ سینٹر کسی بھی امریکی، برطانوی یا کینیڈین کو انگریزی کے استاد کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔
ان کے علاوہ دیگر ممالک کے افراد خصوصاً وہ جن کا رنگ گورا ہو اور لہجہ امریکہ یا برطانوی ہو انہیں بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد چین میں اپنے گورے رنگ کی وجہ سے کنڈر گارٹن اور ٹریننگ سینٹر میں چینی بچوں کو انگریزی پڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔
یہ لوگ یوٹیوب اور نیٹ فلکس دیکھ کر اپنا لہجہ بہتر کر لیتے ہیں، چینی ان کا رنگ دیکھ کر اور لہجہ سن کر نوکری پر رکھ لیتے ہیں۔ انہیں اپنے کام کے عوض اتنے پیسے تو نہیں ملتے جتنے امریکی یا برطانوی اساتذہ کو ملتے ہیں، پھر بھی یہ اتنی رقم کما لیتے ہیں جس سے پاکستان میں ان کے گھر والوں کی زندگی تبدیل ہو سکے۔
یہاں بہت سے بچوں کا دن صبح پانچ بجے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے ختم ہوتا ہے۔ ان کے دن کا ہر منٹ طے شدہ ہوتا ہے۔ سکول کے بعد وہ تین سے چار طرح کی ٹیوشن لیتے ہیں۔
پچھلے سال تک کروڑوں چینی بچے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم اساتذہ سے انگریزی کی آن لائن ٹیوشن بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ چینی حکومت کی ایک پالیسی کی وجہ سے ان کا یہ سلسلہ ایک دم ختم ہو گیا تھا۔
جولائی 2021 میں چین نے طلبہ پر ہوم ورک اور غیر نصابی اسباق کا بوجھ کم کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھانے والی نجی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے انہیں غیر منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کی پالیسی متعارف کروائی تھی۔
چین میں والدین اپنے بچوں کو مختلف اقسام کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمی میں مشغول رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ ہر وقت کچھ نہ سیکھنے میں مصروف رہتا ہے۔
یہاں بہت سے بچوں کا دن صبح پانچ بجے شروع ہوتا ہے اور رات 10 بجے ختم ہوتا ہے۔ ان کے دن کا ہر منٹ طے شدہ ہوتا ہے۔ سکول کے بعد وہ تین سے چار طرح کی ٹیوشن لیتے ہیں۔
میرے ایک دوست ایک ایسے بچے کو جانتے ہیں جو سکول کے بعد رات نو بجے تک تین مختلف زبانوں کی ایک ایک گھںٹے کی آن لائن کلاس لیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین کی اس پالیسی کے بعد نجی ٹیوشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا اور ان کے ساتھ منسلک لاکھوں امریکیوں اور برطانوی اساتذہ کا روزگار بھی ایک دم ختم ہو گیا تھا۔
یہ اساتذہ اپنے ممالک سے چین میں بچوں کو آن لائن ٹیوشن دیتے تھے۔ چینی حکومت کی پالیسی کے بعد انہیں اگلے دن پیغام ملا کہ ان کی نوکریاں ختم کی جا رہی ہیں۔ وہ جو گھر بیٹھے ہر ماہ موٹی تازی رقم کماتے تھے۔ ایک دم خالی ہاتھ ہو کر رہ گئے تھے۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بہت سے غیر ملکی چین چھوڑ کر اپنے اپنے ممالک واپس چلے گئے تھے۔ ان میں سے بہت کم اب تک چین واپس آ سکے ہیں۔ جو آئے ہیں انہوں نے ویزے کے حصول اور چین آنے کے بعد قرنطینہ پر اچھی خاصی رقم خرچ کی ہے۔ انہیں اس کی بالکل پروا نہیں۔ وہ دو سے تین ماہ میں اس نقصان کو پورا کرسکتے ہیں۔
چین میں اس وقت انگریزی تعلیم کے اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ چین کرونا کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے چین سے کسی کا باہر جانا اورباہر سے کسی کا چین آنا، مشکل بنا ہوا ہے۔
اس کا اثر چین کی اربوں یوآن کی انگریزی تعلیم کی صنعت پر بھی پڑ رہا ہے جس سے نہ صرف چین میں موجود کروڑوں افراد بلکہ چین سے باہر موجود لاکھوں افراد بھی منسلک ہیں۔ کرونا وائرس کا زور کچھ کم ہو تو اس صنعت کی بحالی شروع ہو۔