نورڈ سٹریم ٹو اوست لوگا مغربی روس کی سرحد کے قریب ایستونیا اور شمال مشرقی جرمنی میں گریفس والڈ کے درمیان پھیلی 745 میل لمبی پائپ لائن ہے جس کا مقصد بحیرہ بالٹک کے راستے وسطی یورپ کو قدرتی گیس کی ترسیل ہے۔
اس منصوبے کی تعمیر ستمبر 2021 میں 8.3 ارب پاؤنڈ کی لاگت سے مکمل ہوئی تھی لیکن اس کو چلانے کےلیے منصوبے کی آپریٹر روسی سرکاری گیس کمپنی گیزپروم کو ابھی لازمی یورپی ریگولیٹری منظوری نہیں ملی ہے۔
جب سے جرمن چانسلر اولاف شولز نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے بدلے میں پائپ لائن بند کر دی جائے گی، اس وقت سے لگتا ہے یہ کبھی نہیں چلے گی۔
اولاف شولز نے کہا کہ برلن کو حالیہ پیش رفت کے بعد اس منصوبے کا ’ازسرنو جائزہ‘ لینا ہوگا۔ انہوں نے خبردار: ’ اگر میں ایسا کہہ سکتا ہوں تو، اس میں یقینی طور پر وقت لگے گا۔‘
جمعرات 24 فروری کو راتوں رات روس کے حملے کے بعد اس منصوبے کی حتمی منظوری حاصل کرنے کا امکان ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
نورڈ سٹریم ٹو کے ذریعے روس ہر سال جرمنی کو ایک اندازے کے مطابق اضافی 55 ارب مکعب میٹر گیس بھیج سکتا ہے۔ جس سے اس کی موجودہ صلاحیت دوگنی ہو جاتی اور اس کی علاقائی توانائی کا غلبہ بڑھ جاتا۔
اصل نورڈ سٹریم پائپ لائن 2012 میں مکمل ہوئی تھی اور نئی لائن کے متوازی چلتی ہے اور اسی طرح گریفس والڈ میں ختم ہوتی ہے لیکن اس کا خلیج فن لینڈ کے شمالی ساحل پر واقع ویبورگ کا نقطہ آغاز مختلف ہے۔
شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ سفارتی بحران کے پیش نظر روس نے اپنے پڑوسی علاقے، جس پر اس نے پہلے انحصار کیا تھا اور جس کے لیے یوکرین کو منافع بخش ٹرانزٹ فیس ملی تھی، کے ذریعے براہ راست گیس بھیجنے کی بجائے دونوں پائپ لائنوں سے مغرب کو گیس بھیجی ہو۔
کہا جاتا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن جو کے جی بی کے سابق افسر ہیں، 1989 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کی آزادی سے خوش نہیں تھے، خاص طور پر اس کی نیٹو میں شمولیت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فوجی تحفظ حاصل کرنے کی خواہش سے۔
2014 میں جزیرہ نما کریمیا کے الحاق یا اس کے بعد ڈونبس کے مشرقی صنعتی مرکز میں روس نواز علیحدگی پسند حکومتوں کو تسلیم کرنے کی طرح اس پائپ لائن کو یوکرین کے اثر و رسوخ کو مسترد کرنے کی مزید سزا کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
ان کے یوکرینی ہم منصب وولودی میر زیلنسکی نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ نورڈ سٹریم منصوبہ ایک ’خطرناک جیوپولیٹیکل ہتھیار‘ کی طرح ہے اور اور روس یہ کہہ کر اس کو یورپی یونین سے سایسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرسکتا تھا کہ اگر اس کی سیاسی خواہشات پر عمل نہ کیا گیا تو وہ موسم سرما میں گیس روک دے گا۔
جرمنی نے اپنی سابقہ چانسلر انجیلا مرکل کے دور میں طویل عرصے سے بلیک میلنگ کے ان خدشات کو جذباتی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا تھا کہ یہ ایک خالص تجارتی منصوبہ ہے جس سے اس کے دو کروڑ 60 لاکھ گھروں کو گیس اور جوہری توانائی سے دور منتقل کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم، یورپ پہلے ہی توانائی کے بحران میں پھنس چکا ہے اور روسی گیس کمپنی گیزپروم نے حال ہی میں براعظم(یورپ) میں اپنے سٹورز کو متوقع حد تک بھرنے سے انکار کر دیا ہے تاکہ خود کو نمایاں ہونے سے بچایا جا سکے، روسی بے رحمی جیسی ہے اس کو ویسا ہی لیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ برطانیہ اپنی گیس کی درآمدات کا صرف چار فیصد روس سے حاصل کرتا ہے، جرمنی 57 فیصد اور ہنگری، لٹویا، بوسنیا اور شمالی مقدونیہ 100 فیصد حاصل کرتے ہیں، روس کے پاس موجود کارڈز کی طاقت کو واضح کرتے ہوئے، امریکی سرمایہ کاری بینک سٹیفل نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ گیس کی قیمتیں موجود قیمتوں کے مقابلے میں چار گنا بڑھ سکتی ہیں۔
اپنے اعلان سے قبل جرمن چانسلر اولاف شولز نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا جس کے بعد ان دونوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں جوبائیڈن نے ولادی میر پوتن کو خبردار کیا اگر ماسکو یوکرین پر حملہ کرنے کی ’بہت بڑی غلطی‘ کرتا ہے تو وہ نورڈ سٹریم ٹو کو ’ختم‘ کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
دریں اثنا امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے یورپ کو یقین دلایا کہ اگر کوئی مشکلات پیش آئیں تو امریکہ ان توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرے گا۔
انہوں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ:’ہم اس وقت یورپ کی توانائی کی فراہمی کو سپلائی کے جھٹکے سے بچانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جو یوکرین کے خلاف مزید روسی جارحیت کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں۔‘
اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہم آہنگی کی کوششوں میں یہ بھی شامل ہے کہ:’ ’ا س صورت میں توانائی کے ذخائر کو کس طرح تقسیم کرنا ہے، جب روس سپلائی بند کر دے یا ایسا تنازعہ چھیڑ دے جس یوکرین کے ذریعے گیس کے بہاؤ میں خلل پڑے۔‘
امریکہ طویل عرصے سے دونوں پائپ لائنوں کا مخالف رہا ہے- یہاں تک کہ جولائی 2018 میں برسلز میں نیٹو کے ایک سربراہ اجلاس میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس پر تنقید کی تھی۔
برطانیہ کے وزیر دفاع بین ویلیس نے بھی اسی طرح پیشگی اشارہ دیا کہ پائپ لائن کو فعال ہونے سے روکنا ’ان چند کارڈز میں سے ایک ہے جو فرق ڈال سکتے ہیں۔‘
اس سے قبل جرمنی عالمی برادری کے دباؤ کے باوجود یوکرین کی بڑی فوجی حمایت کرنے سے گریزاں تھا، غالبا اس کی وجہ توانائی کے متعلق الجھے ہوئے خدشات تھے۔
تاہم اس کے پاس نورڈ سٹریم ٹو کے علاوہ گیس کی فراہمی کے دیگر ممکنہ آپشنز موجود ہیں جن میں ناروے، نیدرلینڈز، برطانیہ اور ڈنمارک سے گیس کی ترسیلات لینا بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے اسے یرغمال محسوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
© The Independent