پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پیر کو اس ’خط‘ سے لاعلمی ظاہر کی ہے، جسے گذشتہ شب وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران بطور ’ٹھوس ثبوت‘ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کی دھمکی بیرون ملک سے باقاعدہ طور پر دی گئی ہے۔
عمران خان نے کل جلسے سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت ختم کرنے کے لیے باہر سے پیسے آ رہے ہیں اور کچھ مقامی لوگ لاعلمی اور کچھ جانتے بوجھتے اس سازش میں استعمال ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ دستاویزی ثبوت آف دی ریکارڈ دکھانے کو تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور اب قوم اور میڈیا نے طے کرنا ہے کہ ہمیں یوں کتنے عرصے تک جینا ہے۔‘
تاہم وزیر داخلہ شیخ رشید نے پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے گذشتہ رات ہی وزیر خارجہ شاہ محمود سے اس خط کے بارے میں سنا اور وہ اس خط کے بارے میں نہیں جانتے۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کہا کہ 30 اور 31 مارچ تک اس بارے میں فیصلہ ہو جائے گا۔
میرا سیاسی تجربہ کہتا ہے کہ صورتحال ووٹنگ سے ایک گھنٹے قبل بھی بدل سکتی ہے کیوں کہ 172 ارکان کو اسمبلی میں لانا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان فوج کو ملک کی سالمیت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ ’فوج کی نظر کسی کی ذات یا سیاست پر نہیں بلکہ پاکستان پر ہوتی ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے پاکستان کے حق میں کریں گے۔‘
قومی اسمبلی کا اہم اجلاس
قومی اسمبلی كے پیر (آج) شام ہونے والے اجلاس كے ایجنڈے میں وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو ایک بار پھر شامل كیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی سیكریٹیریٹ سے اتوار كی شام جاری ہونے والے ایوان كے آڈر آف دی ڈے (ایجنڈے) میں آئٹم نمبر 3 اور 4 میں وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كا ذكر ہے۔
یاد رہے كہ حزب اختلاف كی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی تحریک جمع كرا ركھی ہے جو قومی اسمبلی كا اجلاس طلب كرنے كی درخواست كے ہمراہ آٹھ مارچ كو اسمبلی سیكریٹیریٹ كے حوالے كی گئی تھی۔
سپیكر قومی اسمبلی نے حزب اختلاف كی ریكوزیشن پر ایوان کا اجلاس اسلام آباد میں او آئی سی كے وزرائے خارجہ كی كونسل كے اجلاس كے باعث تین روز كی تاخیر سے جمعہ 25 مارچ كو طلب کیا تھا۔
تاہم سپیكر اسد قیصر نے جمعے كا اجلاس پاكستان تحریک انصاف كے ركن قومی اسمبلی خیال زمان اوركزئی اور دیگر مرحومین كے ایصال ثواب كے لیے فاتحہ خوانی كے بعد پیر تک ملتوی كر دیا تھا۔
تاہم انہوں نے اجلاس ملتوی كرتے ہوئے واضح كیا تھا كہ وہ وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق قانون اور آئین كے مطابق عمل كریں گے۔
آج ایوان میں كیا ہوگا؟
پیر كے لیے جاری كردہ آڈر آف دی ڈے كے مطابق قومی اسمبلی كے اجلاس كا آغاز شام چار بجے تلاوت قرآن پاک، ترجمے، نعت اور قومی ترانے سے ہوگا جس كے بعد آئٹم نمبر دو كے تحت وفاقی وزرا اراكین قومی اسمبلی كے پوچھے گئے سوالات كے جواب دیں گے۔
سوالات كے وقفے كے بعد ایجنڈے كے اگلے آئٹم نمبر تین كے مطابق سپیكر حزب اختلاف كے اراكین كو وزیراعظم عمران خان كے خلاف پیش كی گئی تحریک عدم اعمتاد كے لیے ایوان سے اجازت طلب كرنے كا كہیں گے۔
حزب اختلاف كی نشستوں پر سے ایک یا ایک سے زیادہ اراكین قومی اسمبلی ایوان سے عدم اعتماد كی قرارداد پیش كرنے كی اجازت طلب كریں گے، جس كے ایجنڈے میں درج الفاظ كچھ یوں ہوں گے: ’اجازت دی جائے كہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاكستان عمران خان كے خلاف اسلامی جمہوریہ پاكستان كے آئین كے آرٹیكل 95 (1) اور قومی اسمبلی كے 2007 كے طریقہ كار كے قواعد و ضوابط كی شق 37 كے تحت عدم اعتماد كے ووٹ كی قرارداد پیش كی جائے۔‘
اسی آئٹم میں وزیر اعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش كرنے والے حزب اختلاف كی جماعتوں كے 147 اراكین قومی اسمبلی كے ناموں كی فہرست بھی لف ہے۔
سپیكر ایوان میں موجود اراكین سے اجازت كی درخواست پر ’ہاں‘ یا ’نہ‘ كی صورت میں ان كی رائے طلب كریں گے اور اس كے حق میں زیادہ ووٹ آنے كی صورت میں اجازت دے دی جائے گی۔
قرارداد پیش كرنے كی اجازت ملنے كی صورت میں ایجنڈے كے آئٹم نمبر چار كے تحت حزب اختلاف كے اراكین قومی اسمبلی ایوان كے سامنے وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد سے متعلق قرارداد پیش كریں گے۔
ایجنڈے میں موجود عدم اعتماد كی قرارداد كے الفاظ ہیں: ’اس ایوان کا خیال ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراكین کی اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں اس لیے انہیں عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘
آئین پاكستان كے آرٹیكل 95 (1) كے تحت قومی اسمبلی كے كل ركنیت (جو اس وقت 341 ہے) كے كم از كم 20 فیصد اراكین وزیراعظم پر عدم اعتماد كی قرارداد پیش كریں گے۔
قومی اسمبلی كے پیر كے ایجنڈے كے آئٹم نمبر چار میں حزب اختلاف كی تمام جماعتوں كے 152 اراكین كے ناموں كی فہرست بھی لف ہے۔
یاد رہے كہ قومی اسمبلی كے جمعے كے اجلاس كے دوران ایوان میں حزب اختلاف كی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے 159 اراكین موجود تھے۔
پاكستان كے آئین كے آرٹیكل 95(2) كے مطابق 95(1) كے تحت وزیراعظم كے خلاف پیش كی جانے والی عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ آئندہ تین دن تک نہیں ہوسكتی جبكہ قرارداد كے پیش ہو جانے كے بعد سات دن میں بہرصورت ووٹنگ كروانی ہوگی۔
یوں وزیر اعظم عمران خان كے خلاف اگر آج (پیر 28 مارچ) كو تحریک عدم اعتماد پیش ہوجاتی ہے تو اس پر جمعرات (31 مارچ) تک ووٹنگ نہیں ہو سكتی جبكہ آئندہ پیر (4 اپریل) تک ووٹنگ كروانا لازمی ہوگا۔
سپیكر تین دن بعد اور سات روز سے قبل وزیراعظم عمران خان كے خلاف ایوان میں پیش كی گئی عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ كروانے كے پابند ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پیش ہو جانے كے بعد ایوان اگلے ایجنڈے آئٹمز پر كارروائی شروع كرے گا، جن كی آج كے لیے كل تعداد 27 ہے اور جن میں قانون سازی كے علاوہ كمیٹیوں كی رپورٹس كا ایوان كے سامنے پیش كیا جانا بھی شامل ہے۔
عدم اعتماد ناكام ہوگی یا كامیاب؟
وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كی ممکنہ كامیابی یا ناكامی كے امكانات جاننے كے لیے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں كے اراكین یا حكومتی اور حزب اختلاف كی نشستوں كی تعداد معلوم ہونا ضروری ہے۔
سال 2018 كے انتخابات كے نتیجے میں وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی قوت ہے جس نے دوسری جماعتوں كی حمایت سے وفاقی حكومت بنا ركھی ہے۔
وفاقی حكومت كو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف كے 155 اراكین كے علاوہ مسلم لیگ ق (5)، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان (7)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (3)، عوامی مسلم لیگ (1)، بلوچستان عوامی پارٹی (5)، جمہوری وطن پارٹی (1) اور دو آزاد اراكین اسمبلی كی حمایت حاصل ہے۔
تاہم جمہوری وطن پارٹی كے واحد ایم این اے اور وزیراعظم كے مشیر خاص شاہ زین بگٹی نے گذشتہ روز حكومت سے علیحدگی اور حزب اختلاف كے ساتھ ملنے كا اعلان كیا، جس كے باعث حكومتی نشستوں پر براجمان ایم این ایز كی تعداد كم ہو كر 154 رہ گئی ہے۔
حكومتی اتحاد كے برعكس اپوزیشن كے اراكین اسمبلی میں پاكستان مسلم لیگ ن (84)، پاكستان پیپلز پارٹی (56)، متحدہ مجلس عمل پاكستان (15)، عوامی نیشنل پارٹی (1)، بلوچستان نیشنل پارٹی (4) اور دو آزاد ممبر قومی اسمبلی شامل ہیں۔
اس طرح 341 اراكین پر مشتمل قومی اسمبلی میں حكومتی جماعتوں سے تعلق ركھنے والے ایم این ایز كی تعداد 178 ہے، جبكہ 163 اراكین قومی اسمبلی اپوزیشن بینچز كا حصہ ہیں۔
آئین پاكستان كے آرٹیكل 95 كے مطابق وزیراعظم كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد ایوان كی كل ركنیت كی سادہ اكثریت سے كامیاب ہو سكتی ہے۔
لہذا حزب اختلاف كو وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد کو كامیاب بنانے كے لیے قومی اسمبلی كے مزید كم از كم نو اراكین كی حمایت دركار ہے۔
حزب اختلاف كی جماعتوں كا دعوی ہے كہ انہوں نے ایم این ایز كی مطلوبہ تعداد پوری كر لی ہے اور اس سلسلے میں چند روز قبل پاكستان تحریک انصاف كے منحرف ایم این ایز كی اسلام آباد میں سندھ ہاوس میں موجودگی كو قصدا منظر عام پر لایا گیا تھا۔
موجودہ قومی اسمبلی میں پاكستان تحریک انصاف كے كم از كم 50 ایسے اراكین موجود ہیں جو 2018 كے عام انتخابات سے قبل حزب اختلاف كی مختلف جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں اور انہی میں سے كچھ ایم این ایز سندھ ہاوس میں موجود تھے۔
صحافی اور وی لاگر شاكر سولنگی كے مطابق اپوزیشن كی جماعتیں ایسے ہی اراكین پر كام كر رہی ہیں اور اس سلسلے میں آئندہ انتخابات میں ٹكٹ كا جھانسا سب سے كارگر ثابت ہو سكتا ہے۔
دوسری طرف حزب اختلاف كی تینوں بڑی جماعتیں (پاكستان مسلم لیگ ن، پاكستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن) حكومت كی اتحادی جماعتوں كی حمایت بھی حاصل كرنے كی كوششیں كر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں حزب اختلاف كے رہنماؤں نے مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ پاكستان، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) وغیرہ سے کئی ملاقاتیں كی ہیں۔
اپوزیشن كے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور ان كے اہم وفاقی وزرا بھی گجرات میں چوہدری برادران، کراعی میں ایم كیو ایم اور کوئٹہ میں باپ كے رہنماؤں سے ملتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان كے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد كی تحریک كی كامیابی یا ناكامی كا حتمی فیصلہ تو قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد پر ووٹنگ كے بعد ہو گا لیکن اس وقت ملک میں سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔
حکمراں جماعت پاكستان تحریک انصاف اور اپوزیشن پارٹیاں زیادہ سے زیادہ ایم این ایز كی حمایت حاصل كرنے كی كوشش كر رہے ہیں۔
حزب اختلاف كی جماعتیں اپنے حمایتی ایم این ایز كو عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ والے دن ایوان میں لانے پر مجبور ہوں گی كیوں كہ انہوں نے عدم اعتماد کی حمایت میں 172 اراكین كو ایوان میں كھڑا كرنا ہوگا۔
حزب اختلاف كے برعكس پاكستان تحریک انصاف اپنے حمایتیوں كو قرارداد پر ووٹنگ والے روز ایوان سے دور ركھنے كی كوشش كرے گی۔
عدالتی جنگ
دوسری جانب صدر مملكت ڈاكٹر عارف علوی نے ایک صدارتی ریفرنس كے ذریعے سپریم كورٹ آف پاكستان سے آئین كے آرٹیكل 63 اے كے تحت پاكستان تحریک انصاف كے منحرف ایم این ایز كے عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹ كی قانونی حیثیت اور ان كی نا اہلی سے متعلق رہنمائی طلب كر ركھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکمراں جماعت پی ٹی آئی دراصل اپنے ہی منحرف ایم این ایز كو وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹ ڈالنے كے حق سے محروم كرنے اور ووٹ استعمال كرنے كی صورت میں انہیں انحراف كی وجہ سے تاحیات نااہل كروانے كی خواہاں ہے۔
چیف جسٹس آف پاكستان عمر عطا بندیال كی سربراہی میں سپریم كورٹ آف پاكستان كا پانچ ركنی بینچ صدارتی ریفرنس كی سماعت كر رہا ہے جس كی آج ہی كے روز تیسری پیشی ہونی ہے۔
امید كی جا رہی ہے كہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل سپریم كورٹ اپنی رائے صدر مملكت كو بھیج دے گی۔