روس کے کیئف پر چڑھائی میں کمی کرنے کے اعلان پر امریکہ کو شک

ترکی میں جاری مذاکرات کے دوران روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف اور شمالی شہر چرنی حیئف پر مزید فوجی پیش قدمی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن امریکہ اور مغرب کو اس پر شکوک و شبہات ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ فی الحال پوری طرح قائل نہیں ہو پائے کہ روس کی جانب سے یوکرینی دارالحکومت کیئف کے قریب فوجی پپیش قدمی سے گریز جنگ میں بنیادی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔

بائیڈن سنگاپور کے وزیر اعظم کے لی حسیئن لونگ کے ساتھ منگل کو وائٹ ہاؤس میں دو طرفہ مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے جب انہوں نے کہا کہ وہ یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ روس یوکرین کے ساتھ جاری مذاکرات میں کیا پیشکش کرتا ہے اور کس طرح اپنی فوج  کی موجودگی کو دوبارہ سے ترتیب دیتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکہ اور مغرب کی جانب سے روس کے اعلان پر شکوک و شبہات کا اظہار ہوا ہے جس میں ماسکو نے یوکرین کے ساتھ ترکی میں جاری مذاکرات میں اعتبار قائم کرنے کے لیے فوجی کارروائی میں پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا:  ’ہم دیکھیں گے۔ جب تک میں ان کا عمل نہ دیکھ لوں مجھے اس میں کچھ نظر نہیں آ رہا۔‘

وائٹ ہاؤس کی کمیونی کیشن ڈائریکٹر کیٹی بیڈنگ فیلڈ نے بعد ازاں زیادہ بڑے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ روسی افواج کی کسی بھی نقل و حرکت کو ’دوبارہ تعیناتی کے طور پر دیکھتے ہیں نہ کہ پیچھے ہٹنے کے طور پر۔‘

بیڈنگ فیلڈ نے کہا: ’دنیا کو یوکرین کے دیگر علاقوں میں بڑے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سب کو علم ہونا چاہیے کہ ہم یوکرین کے دیگر علاقوں میں حملے دیکھتے رہیں گے۔‘

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا: ’روس کی جانب سے پیچے ہٹنا لوگوں کو دھوکا دینے اور توجہ ہٹانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔‘

امریکی وزیر خارجہ بلنک نے مراکش میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’ایک وہ چیز ہے جو روس کہتا ہے اور ایک وہ ہے جو روس کرتا ہے، ہم دوسری چیز پر متوجہ ہیں۔ جو روس کر رہا ہے وہ یوکرین پر ظلم ہے۔‘


ترکی میں جاری مذاکرات میں اب تک کی کارروائی میں کیا ہوا؟

تازہ ترین مذاکرات میں جنگ کو ختم کرنے کے لیے ممکنہ معاہدے کے تحت روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیئف اور ایک شمالی شہر کے قریب اپنے فوجی آپریشن بڑی حد تک ختم کرے گا۔

ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں یوکرینی وفد نے منگل کو ایک فریم ورک بنایا ہے جس کے تحت یوکرین کو ایک غیر جانبدار ملک قرار دیا جائے گا جس کی حفاظت کی ضمانت دیگر اقوام مشترکہ طور پر دیں گی۔

روس کی جانب سے عوامی رد عمل مثبت تھا اور مذاکرات بدھ یعنی آج دوبارہ ہونے کا امکان ہے۔ جنگ کو شروع ہوئے پانچ ہفتے ہوئے گئے ہیں جو ایک خونی جنگ بن چکی ہے جس میں ہزاروں افراد مر چکے ہیں اور تقریباً چالیس لاکھ یوکرینی ملک چھوڑ چکے ہیں۔

مذاکرات کے دوران روس کے نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومن نے کہا: ’روس نے فیصلہ کیا ہے کہ کیئف اور چرنی حیئف کی جانب فوجی کارروائی روکی جائے گی تاکہ باہمی اعتبار بڑھایا جا سکے اور مزید مذاکرات کے لیے ماحول بن سکے۔‘

انہوں نے فوری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس بات کا عملی اظہار کیا ہو گا۔

اس اعلان کو امریکہ اور مغرب کی جانب سے شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔

یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے بھی ایک ویڈیو بیان میں کہا: ’روس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ مذاکرات سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ لیکن یہ اشارے روسی بموں کو خاموش نہیں کر سکتے۔‘

صدر زیلنسکی نے مزید کہا: ’یوکرینی افواج نے روس کو مجبور کیا ہے۔ ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے ملک پر حملے جاری رکھنے کے لیے اب بھی حملہ آور فوج کے پاس بڑی طاقت ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’یوکرین مذاکرات جاری رکھے گا لیکن حکام ایسے ملک پر بھروسہ نہیں کر سکتے جو ہمیں تباہ کرنے کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘

ایسے میں جب روس اس اقدام کو ایک خیر سگالی کا اشارہ قرار دے رہا ہے، میدان میں موجود روسی افواج کو کیئف اور دیگر یوکرینی شہروں پر قبضہ جمانے کے لیے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

گذشتہ ہفتے منگل کو ایسا لگا کہ روس نے اپنی جنگی مقاصد کم کر دیے ہیں جب ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ہمارا بنیادی مقصد روسی زبان بولنے والے علاقے دونبیس ریجن کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔‘

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ روسی فوج پیش قدمی میں کمی کا اعلان کیا ہو۔ جنگ سے قبل اس نے اعلان کیا تھا یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات اس کے یونٹس سامان ریل گاڑیوں میں منتقل کر رہے ہیں اور واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس وقت روسی صدر پوتن سفارت کاری کی ترجیح کو ظاہر رہے تھے۔ لیکن دس روز بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔

مغربی حکام کا کہنا ہے کہ روس یوکرینی افواج کو گھیرے میں لینے کے لیے دونبیس میں کمک پہنچا رہا ہے۔

جنوبی شہروں میں روس کا محاصرہ جاری ہے جس میں شہری ماریوپول اور دیگر تباہ حال شہروں میں ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

میکسر ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین سیٹیلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں افراد راشن سٹور کے باہر قطار میں کھڑے منتظر ہیں کیوں کہ کھانے اور پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

اب جب کہ مذاکرات کار مل بیٹھے ہیں تو پھر بھی روسی افواج نے یوکرینی شہر مائی کولیئف میں ایک نو منزلہ سرکاری عمارت میں حملہ کر کے سوراخ کر دیا ہے۔ اس میں 12 افراد مارے گئے اور ایمرجنسی حکام کے مطابق ملبے میں دیگر لاشوں کی تلاش جاری ہے۔

ریجنل گورنر ویٹالیئے کم کے مطابق ’یہ خوفناک ہے۔ انہوں نے حملے سے پہلے انتظار کیا کہ لوگ کام پرجائیں۔ میں نے کچھ زیادہ سو لیا۔ میں خوش قسمت رہا۔‘


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا