سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپاکسے منگل کو اپنی پارلیمانی اکثریت سے محروم ہو گئے ہیں۔ سابق اتحادیوں نے ان کے استعفے پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے ملک میں جاری شدید معاشی بحران کے خلاف کئی روز تک احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کھانے پینے کی اشیا، ایندھن اور دیگر اشیائے ضرورت کی شدید قلت سمیت ریکارڈ مہنگائی اور بجلی کی بندش نے 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد ملک کی سب سے زیادہ تکلیف دہ بدحالی میں بڑے پیمانے پر مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
صدر گوتابایا راجاپاکسے کا کبھی طاقتور حکمران اتحاد اتحادیوں کے مسلسل الگ ہونے بعد کے مسائل کا شکار ہے۔ منگل کو نئے وزیر خزانہ نے عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک دن بعد مستعفی ہونے کے اعلان کر دیا۔ دوسری جانب عوام کا غصہ عروج پر ہے۔ ہجوم نے ہفتے کے آخر سے کئی حکومتی شخصیات کے گھروں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی جب کہ ملک میں زیادہ بڑے مظاہرے کیے گئے۔
صدر کی پارٹی سے الگ ہونے ہونے والے قانون ساز پارلیمنٹ کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ صدر اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور بگڑتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے دوسروں کے لیے جگہ بنائیں۔
وجایا داسا راجاپاکسے کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم نے اب قدم نہ اٹھایا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ہمیں پارٹی سیاست بھولنی پڑے گی اور عبوری حکومت کو یقینی بنانا ہو گا۔‘
درجنوں قانون سازوں کی جانب سے راجاپاکسے کی حکومت کے لیے حمایت ختم کرنے کے بعد منگل کو پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہوا۔ حکومت سے الگ ہونے والوں میں راجاپاکسے کی اپنی سری لنکاپوڈوجانا پارٹی (ایس ایل پی پی) سے تعلق رکھنے والے 16 قانون ساز اور سابق اتحادی شامل ہیں۔
سری لنکا کی 255 رکنی ایوان میں حکومتی اکثریت کو پانچ ارکان کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا قانون ساز تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو حکومت مستعفی ہونے پر مجبور کر دے گی۔ حزب اختلاف جماعتوں نے پہلے ہی صدر اور ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم مہندا راجاپاکسے کی قیادت میں اتحاد کی انتظامیہ میں شامل ہونے کے مطالبے کو مسترد کرچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت نے سڑکوں پر بڑھتے ہوئے مظاہروں کو روکنے کے لیے ہفتے کو ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی تاہم اس سلسلے میں جاری کیا جانے والے آرڈیننس کی مدت پارلیمانی منظوری نہ ہونے کی صورت میں اگلے ہفتے ختم ہو جائے گی۔
راجا پاکسے حکومت سے الگ ہونے والے سابق وزیر نمل لانزا نے تسلیم کیا ہے کہ حکمران جماعت حکومت کرنے کے اختیار سے محروم ہو چکی ہے۔ انہوں نے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبے کرنے والے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پارلیمنٹ کے اجلاس میں ارکان سے اپیل کی وہ مظاہرین کی حمایت کریں۔ اجلاس میں شریک وزیر اعظم خاموش رہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا کا بحران حکومتی بدانتظامی، برسوں کے جمع شدہ قرضے اور ناجائز ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔
حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن بات چیت کا آغاز ہونا ابھی باقی ہے۔