سری لنکا نے منگل کو دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ ملکی معیشت بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور حکومت کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سری لنکا پر51 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے ہیں۔
خوراک اور ایندھن کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ روزانہ بجلی کی طویل بندش کی وجہ سے ملک کے 22 ملین لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چیت کے مرحلے سے پہلے آیا ہے جس کا مقصد مزید تباہ کن ہارڈ ڈیفالٹ کو روکنا ہے۔
سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر نندلال ویراسنگھے نے کولمبو میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم غیر ملکی قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘
سری لنکا کے قرضوں کا نصف سے کم حصہ بین الاقوامی خودمختار بانڈز کے ذریعے مارکیٹ میں لیا گیا قرضہ ہے، جس میں ایک بلین ڈالر مالیت بھی شامل ہے جو 25 جولائی کو میچور ہو رہی تھی۔
چین سری لنکا کا سب سے بڑا دو طرفہ قرض دہندہ ہے اور تقریباً 10 فیصد غیر ملکی قرضے چین کی جانب سے دیے گئے۔ اس کے بعد جاپان اور بھارت ہیں۔
حکومت نے 2005 سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے بیجنگ سے بہت زیادہ قرضہ لیا ہے، جن میں سے اکثر سفید ہاتھی بن گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سری لنکا نے اپنی سٹریٹجک ہمبنٹوٹا بندرگاہ بھی 2017 میں ایک چینی کمپنی کو لیز پر دی تھی جب وہ اس کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے بیجنگ کے 1.4 بلین ڈالر کے قرض کو پورا کرنے میں ناکام ہو گئی۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ منگل کو اعلان کردہ دیوالیے کے باوجود چین سری لنکا کو مزید قرض دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’چین نے ہمیشہ سری لنکا کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں مدد فراہم کرنے میں اپنی پوری کوشش کی ہے۔ ہم مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔‘
’مستقبل سے خوفزدہ‘
سری لنکا میں معاشی بحران اس وقت محسوس ہونا شروع ہوا جب کرونا نے سیاحت اور ترسیلات زر کی اہم آمدنی کو ہدف بنانا شروع کیا۔ حکومت نے کم ہوتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بچانے اور ان قرضوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک وسیع درآمدی پابندی عائد کی جس کے بعد وہ اب نادہندہ ہے۔
لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے عوامی غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ 20 مارچ سے ایندھن کی قطاروں میں انتظار کرتے ہوئے کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے دو کی موت پیر کو ہوئی ہے۔
پیر کو کولمبو میں ایک حکومت مخالف ریلی میں شریک سمندر دیوی نے اے ایف پی کو بتایا ’مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہوں، ملک کہاں جا رہا ہے؟ یہ افسوس ناک ہے۔‘