ویٹرنز آف پاکستان نے اسمبلیاں تحلیل کر کے ملک فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت ان انتخابات کی نگرانی کرے۔
ویٹرنز آف پاکستان نے پیر کو اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر ایک پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ’رانا ثنا اللہ مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔‘
اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ علی قلی خان، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یٰسین اور دیگر ریٹائرڈ آرمی افسران بھی موجود تھے جنہوں نے نیوز کانفرنس کے دوران مشترکہ سفارشات پیش کیں۔
پاکستان آرمی کے پہلے لانگ کورس سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر میاں محمود نے کہا کہ ’عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی اور ہم نے انہیں کہا تھا کہ 90 دن میں الیکشن کرائے جائیں۔ ملاقات میں انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ 90 دن میں الیکشن ہوں گے اب وہ اپنا وعدہ پورا کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو امریکی تھریٹ کا سامنا ہے۔ پاکستان کے اندر سے کچھ لوگوں نے امریکی سازش کا ساتھ دیا تھا جن کے نام نہیں لینا چاہتا۔‘
’امریکہ سے آنے والے خط پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس اور جنرل باجوہ سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ خط کو دیکھیں۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’25 مئی کو راستوں کی بندش، تشدد کی تحقیقات کروائی جائیں، رانا ثنا اللہ کو برطرف کیا جائے، بہترین معاشی ٹیم بنائی جائے، عدالت الیکشن کی نگرانی کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب میں آئینی بحران کو حل کریں اور جائز حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ جبکہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ایف آئی اے کیسز میں مانیٹرنگ جج مقرر کیا جائے۔‘
جنرل ریٹائرڈ علی قلی نے کہا کہ ’میں اپنی تیسری پشت سے فوج میں ہوں۔ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہے۔ ہم کسی سے دشمنی نہیں چاہتے جو پاکستان کو نقصان پہنچائے وہ ہمارا دشمن ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا ہم جائزہ لیتے رہتے ہیں اور اپنی تجاویز حکومتوں کو دیتے رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو درپیش خطرات اندرونی اور بیرونی ہیں۔ ’ان خطرات کو ہم نے نوٹ کیا ہوا ہے۔ ان خطرات سے متعلق ہم نے نواز شریف کو بھی بتایا تھا۔ پاکستان کو بیرونی خطرات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ اندرونی حالات بھی بہت کمزور ہوگئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب اس حوالے سے متعلقہ ذرائع کے مطابق ویٹرن آف پاکستان کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طریقہ کار کے مطابق ویٹرن آف پاکستان تنظیم بنانے کے لیے جی ایچ کیو کی منظوری ضروری ہے۔
’ان کا کردار ریٹائرڈ ملٹری کی فلاح و بہبود سے متعلق ہے۔ ایسی تنظیمیں کسی بھی حالالت میں کسی سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کام نہیں کر سکتیں۔ تمام ریٹائرڈ فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہیں۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بھی بنا سکتے ہیں یا کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں لیکن ریٹائرڈ آرمی افسران کے پلیٹ فارم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔‘
ریٹایرڈ آرمی افسران کے ساتھ نیوی اور ائیر فورس سے ریٹائرڈ افسر بھی بیگمات اور اہل خانہ کے ہمراہ پریس کلب میں موجود تھے۔
پہلے پریس کانفرنس پریس کلب کے اندر ہونا تھی لیکن پھر بجلی کی عدم دستیابی کے باعث پریس کلب کے اندر پریس کانفرس نہیں کی گئی۔
ویٹرن آف پاکستان کی بیگمات نے دعویٰ کیا کہ پریس کلب انتظامیہ نے دباؤ میں آ کر انہیں اندر جگہ نہیں دی لیکن اس معاملے پر جب پریس کلب کے صدر انور رضا سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا یہ غلط الزام ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان ویٹرنز پریس کلب کے اندر نعرے بازی کر رہے تھے اور کسی بھی جماعت یا گروپ کو پریس کلب کے اندر نعرے بازی کی اجازت نہیں ہے۔‘