بغاوت کے مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد آج اسلام آباد میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سماعت کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
شہباز گل کو بدھ (10 اگست) کو ہونے والی سماعت کے دوران جوڈیشل مجسٹریٹ نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا تھا، جنہیں آج ریمانڈ کے خاتمے پر دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سماعت کے موقعے پرعدالت کے اطراف پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری آٹھ اگست کو نجی نیوز چینل اے آر وائی پر ملکی اداروں کے خلاف ایک بیان کے بعد عمل میں آئی تھی۔
شہباز گل کے اس بیان کے بعد نہ صرف پیمرا نے اے آر وائی کی نشریات بند کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف بھی اسلام آباد میں بغاوت کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ شہباز گل کے خلاف ایسا ہی ایک مقدمہ کراچی میں بھی سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
دوران سماعت شہباز گل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ’اے آر وائی پر میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، میں اداروں کی عزت کرتا ہوں۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کی حراست کے دوران انہیں ساری ساری رات سونے نہیں دیا گیا، جبکہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔
شہباز گل نے کمرہ عدالت میں قمیص اٹھا کر اپنی کمر دکھاتے ہوئے کہا کہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود ہیں۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کا میڈیکل بھی نہیں کروایا گیا، بلکہ پولیس نے اپنی طرف سے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنا لیا ہے۔
شہباز گل کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے وکلا سے بھی ملنے کی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی۔
تحریک انصاف کے رہنما نے مزید کہا کہ پولیس کی حراست کے دوران تھانہ کوہسار کے علاوہ انہیں کسی دوسری جگہ رکھا گیا تھا۔ ’مجھ سے سے بار بار سوال ہوتا ہے کہ عمران خان نے تمہیں کیا کہا تھا؟‘ جبکہ وہ ہر مرتبہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کوئی بیان ہی نہیں دیا۔
شہباز گل نے کہا کہ وہ افواج پاکستان کے بارے میں ایسی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ وہ ایک پروفیسر ہیں اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہے چکے ہیں، نہ کہ کوئی مجرم۔
دوران سماعت شہباز گل کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی آڈیو میں موجود آواز ان کی آواز سے میچ کر گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ملزم کا ایک موبائل فون ان کی گاڑی میں رہ گیا تھا، جبکہ دوسرا ان کے پاس تھا۔
اس موقع پرعدالت نے تفتیشی افسر سے دریافت کیا کہ ’انہیں دوسرا موبائل کے ملزم کے پاس ہونے کی معلومات کیسے حاصل ہوئی ہیں؟‘
جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ یہ معلومات انہیں ان کے ذرائع نے دی ہیں کہ دوسرا موبائل بھی تھا۔
ملزم شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ٹی وی چینل سے لینڈ لائن پر بات ہوئی تھی، نہ کہ موبائل فون کے ذریعے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی گرفتاری کے وقت شام کے چار بجے کا وقت تھا اور سگنل نہ ہونے کے باعث کوئی موبائل کام نہیں کر رہا تھا۔
اس موقعے پر ایڈوکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’شہباز گل نے ٹی وی چینل پر جو کچھ پڑھا، وہ پہلا سے لکھا ہوا ایک ٹرانسکرپٹ تھا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ملزم نہیں بتا رہا کہ اس سب کے پیچھے کون تھا۔‘
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہوگا کہ معلوم ہو سکے وہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔
ایڈوکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے کہا کہ ملزم اپنے لیٹ ٹاپ تک رسائی بھی نہیں دے رہے جبکہ اپنے ڈرائیور کو بنی گالہ میں چھپا رکھا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے شہباز گل کی ٹی وی چینل پر گفتگو کا سکرپٹ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا اور ملزم کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔
پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ شہباز گل نے ٹی وی پر بولے گئے اپنے بیان میں پاکستانی فوج کے اندر مختلف رینکس کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی اور استغاثہ کی تفتیش کا مقصد شواہد اکٹھے کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ریمانڈ میں انہوں نے ٹرانسکرپٹ کے اصلی یا نقلی ہونے کی تصدیق کرنا تھی جبکہ اب دیکھنا ہو گا کہ ٹی وی پروگرام کا پروڈیوسر کون تھا۔
پراسیکیوٹر نے عدالت سے چار پانچ دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران ملزم کا پنجاب فرانزک لیب سے پولی گرافک ٹیسٹ کروایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے پیمرا کو بھی مراسلہ بھیجا ہے اور ملزم کو کراچی لے جائے جانے کا امکان بھی موجود ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ آڈیو میچنگ ٹیسٹ میں ثابت ہوا ہے کہ ٹی وی چینل پر شہباز گل ہی بات کر رہے تھے۔
شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے نشانات ان کے موکل کے کپڑوں پر نہیں بلکہ کمر پر موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا کو فیڈ کیا جارہا ہے کہ شہباز گل وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے فیصل چوہدری کی جانب سے میڈیا پر الزامات لگانے پر اعتراض کیا۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ کراچی پولیس نے نجی چینل کے سینئیر اہلکار کو چھوڑ دیا ہے اور استغاثہ ان کے موکل کو کراچی سکردو یا شمالی علاقہ جات لے کر جانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کے پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جوڈیشل ریمانڈ کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے۔
شہباز گل کے دوسرے وکیل علی بخاری نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک قسم کے الزامات میں دو مختلف مقدمے نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی عدالت نے اے آر وائی کے سینئیر اہلکار کو اسی قسم کے الزامات میں رہا کر دیا ہے۔
سماعت کے بعد عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
شہباز گل نے کوئی بیان ریکارڈ نہیں کروایا: فواد چوہدری
جمعے کو شہباز گل کے خلاف کیس کی سماعت کے موقعے پر عدالت آنے والے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’شہباز گل نے کوئی بیان پولیس کو ریکارڈ نہیں کروایا۔ انہوں نے کہا کہ میں فوج سے محبت اور اداروں کا احترام کرنے والا آدمی ہوں اور جو الزامات مجھ پر ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج ایک ہی ہیں۔ میں کیسے فوج کے خلاف بیان دے سکتا ہوں۔ میرا بیان بالکل فوج کے خلاف نہیں ہے۔‘
شہباز گل کے موبائل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا: ’اس دن محرم تھا، سگنلز نہیں تھے تو وہ تو استعمال ہی نہیں ہوا۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ ابھی ہم نے آوازیں میچ کرنی ہیں۔‘
ذاتی بیان کے متعلق سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا: ’شہباز گل کہتے ہیں کہ وہ میرا ذاتی بیان تھا۔ کوئی کسی جگہ سے پڑھ کر نہیں دیا، جو اس وقت ذہن میں آ رہا تھا وہ دے دیا ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’اگر لفظ غدار بناتے ہیں تو رانا ثنا کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ نوازشریف، مریم نواز، ایازصادق کیسے باہر بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی جیل میں ہونا چاہیے۔‘