حیدرآباد میں گذشتہ رات سینیٹری ورکرز کے پیشے سے منسلک پاکستانی ہندو شہری اشوک کمار پر توہین مذہب کا الزام لگانے اور پرتشدد ہجوم اکٹھا کر لینے والے 48 افراد کو مقامی عدالت نے پیر کی دوپہر 20 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کردیا ہے جبکہ ملزم کو سات روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
یہ 48 افراد کینٹ پولیس نے گرفتار کیے تھے۔ حیدرآباد کینٹ تھانے کے ڈیوٹی افسر شاکر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’گذشتہ رات صدر کے علاقے میں ایک رہائشی عمارت پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے والے پرتشدد ہجوم کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 48 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن کو عدالت نے 20، 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کردیا ہے۔‘
واقعے کے بعد حیدرآباد کینٹ تھانے کی پولیس نے متاثرہ عمارت سے متصل پلازہ میں کپڑوں کی دکان کے مالک بلال ولد بندو خان عباسی کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 245 اور 34 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے عمارت کے ایک سینیٹری ورکر اشوک کو حراست میں لے لیا تھا۔
مقدمے کے مدعی بلال عباسی نے موقف اختیار کیا کہ ساتھ والی دکان کے مالک نبیل نے ان کو کہا کہ رابی پلازہ میں کوئی مسئلہ ہوا ہے جاکر دیکھو جس پر وہ محمد یاسین عباسی کے ساتھ رابی پلازہ گئے تو اس کے چوتھے فلور پر لفٹ کے پاس مقدس کتاب کے کچھ اوراق جلے ہوئے تھے۔
انہوں نے وہاں موجود سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ مقدس کتاب انہوں نے جلائی ہے، جس پر سینیٹری ورکر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ جلے ہوئے اوراق اور سینیٹری ورکر کو لے کر تھانے پہنچے اور پولیس کے حوالے کر دیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حیدرآباد صدر میں واقع رہائشی عمارت رابی پلازہ کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہیں اور اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ دوسری ویڈیو میں پولیس اور رینجرز کی جانب سے ہجوم پر آنسو گیس، ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔
واقعے کے بعد کینٹ تھانے کی پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے توڑ پھوڑ کرنے والے 48 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔
واقعے کی وائرل ویڈیو میں ایک شخص ہجوم کو اکساتے دیکھا گیا لیکن بعد میں جاری ہونے والی ایک اور ویڈیو میں مذکورہ شخص نے بتایا کہ اس کا نام احسان ہے اور لوگوں کے باتوں میں آکر ایسا بیان دیا گیا۔ ویڈیو میں احسان نے مزید کہا کہ ’سب شہری برابر ہیں اور قانون موجود ہے جس پر عمل ہونا چاہیے۔‘
وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے کر کسی پر بھی حملہ کردے۔‘
عبدالرشید چنا کے مطابق ’ہم سندھ میں رہنے والی اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیں گے۔ اگر کسی نے مذہب کی توہین کی ہے تو پاکستان کا قانون موجود ہے، اسے گرفتار کر کے قانون کے دائرے میں کیس چلایا جائے مگر اس طرح پرتشدد ہجوم جا کر کسی پر بھی حملہ کردے اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی مائنارٹی ونگ حیدرآباد کے جنرل سیکریٹری اور ہندو پنچایت حیدرآباد کے سربراہ ایم پرکاش نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’اس واقعے کے بعد شہر کے ہندوؤں میں بڑا خوف تھا۔ سب لوگ بڑے پریشان تھے اور جس طرح ہجوم والی ویڈیوز آرہی تھیں اس سے خدشہ تھا کہ کوئی بڑا واقعہ ہوجائے گا۔ مگر حیدرآباد پولیس اور رینجرز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حالات پر قابو پا لیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ایم پرکاش نے بتایا کہ صدر میں جہاں یہ واقعہ پیش آیا اس علاقے میں ہندوؤں کی اکثریت آباد ہے۔ ان کے مطابق ’جس عمارت میں یہ واقعہ پیش آیا اس میں ٹوٹل 24 فلیٹ ہیں جن میں 18 فلیٹ ہندوؤں کے ہیں۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کی موبائل مارکیٹ میں 50 فیصد سے زائد دکان ہندو بیوپاریوں کے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایم پرکاش کے مطابق حیدرآباد میں تقریباً 25 لاکھ ہندو آباد ہیں۔ ’گذشتہ کچھ سالوں سے بدین، ٹھٹھہ، تھرپارکر، تھانہ بولا خان اور شمالی سندھ کی مختلف اضلاع سے بڑے تعداد میں سندھی ہندو نقل مکانی کرکے حیدرآباد اور کراچی آئے ہیں اور یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔‘
دوسری جانب حیدرآباد واقعے کے تناظر میں کراچی پولیس نے رات گئے شہر کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے ہیں۔
ایس ایس پی ضلع جنوبی کراچی اسد رضا نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی جنوبی کے مختلف علاقوں میں واقع ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر پولیس کی نفری تعینات کیے جانے کے ساتھ تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو حیدرآباد واقعے کے تناظر میں الرٹ کردیا گیا ہے۔