سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غیر ملکی اثاثے چھپانے سے متعلق ریفرنس اور صدر پاکستان کو خطوط لکھنے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کو دو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
ایک نوٹس کا تعلق ان کے خلاف صدارتی ریفرنس سے ہے۔ جبکہ دوسرا نوٹس ان کی جانب سے صدر پاکستان کو خطوط لکھنے کے سلسلے میں ہے۔
صدر پاکستان عارف علوی نے مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی منظوری دی۔ جس میں ان پر بیرون ملک اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔
ان کے خلاف ریفرنس بھیجے جانے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدر عارف علوی کو دو خطوط لکھے تھے۔ جن میں انہوں نے ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تفصیلات مانگیں تھیں۔
یہ خطوط صدر پاکستان کے علاوہ، وزیر اعظم عمران خان اور سپریم کورٹ کو بھی بھیجے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کی دوپہر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا کہ نوٹسز کے اجرا کے باعث وہ امریکہ کا دورہ مختصر کر کے واپس آ رہے ہیں۔ اور آئندہ ہفتے اس متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغہ کے خلاف بھی اسی نوعیت کا ریفرنس موجود ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں بھی اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔
دونوں ججوں پر اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد کے بیرون ملک اثاثے پوشیدہ رکھنے کا الزام ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے گذشتہ ہفتے دونوں ججوں کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں پر غور کیا۔یہ ثبوت اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے پروسیجر آف انکوائری 2005 کے رول 9 کے مطابق: اگر کونسل کسی جج کے خلاف کاروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس جج کوثبوتوں کے ہمراہ اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے گی تاکہ وہ جج چودہ دن کے اندر اپنی رویے کی وضاحت کر سکے۔جج کا جواب موصو ل ہونے پر کونسل اجلاس طلب کر ے گی اور اس معاملے پر آگے کاروائی عمل میں لائے گی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے دوسرے اراکین میں گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید،(سپریم کورٹ)، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد شاہ شامل ہیں۔
وکلا تنظیموں نے دونوں ججوں کے خلاف ریفرنسز داخل کرانے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ گذشتہ ہفتے پشاور میں آل پاکستان وکلا کنونشن نے حکومت بھی سے ریفرنسز واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔