خیبر پختونخوا قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ضمنی انتخابات 16 اکتوبر کو ہوں گے۔
مردان کے این اے 22، چارسدہ کے این اے 24 سمیت پشاور کے این اے 31 پر ان انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
باقی تین حلقوں کی طرح این اے 31 میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پارٹی کے امیدوار ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے متفقہ امیدوار غلام احمد بلور میدان میں اتریں گے۔
یہ حلقہ پشاور کے پانچ قومی اسمبلی حلقوں میں سے ایک ہے جس میں پرانے تاریخی پشاور شہر کے زیادہ علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے میں مشہور علاقے قصہ خوانی، گور گٹھری تحصیل، چوک یادگار، رام داس کریم پورہ اور گھںٹہ گھر بھی شامل ہیں۔
اس حلقے کی مجموعی آبادی تقریباً آٹھ لاکھ 70 ہزار ہے۔
این اے 31: ماضی میں کون جیتا کون ہارا؟
ماضی میں یہ قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ یعنی ’این اے ون‘ کہلاتا تھا جس کو 2018 میں این اے 27 (پشاور ون) کہا گیا اور اب نئی حد بندیوں میں اس کا نام این اے31 رکھ دیا گیا ہے۔ 2018 کی حد بندیوں میں سابق این اے ون کے زیادہ تر علاقے اب اس حلقے میں شامل کیے گئے ہیں۔
2002 تک پشاور میں قومی اسمبلی کے تین حلقے تھے جنہیں بعد میں پانچ حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔
اکتوبر 2022 کے یہ ضمنی انتخابات 2018 کی حد بندیوں کے مطابق ہوں گے جبکہ 2023 کے عام انتخابات نئی حد بندیوں کے مطابق منعقد ہوں گے۔
سیاسی لحاظ سے حلقہ این اے 31 ایک اہم حلقہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے والے کھلاڑی بہت طاقتور سمجھتے جاتے ہیں۔
ماضی میں اے این پی کے غلام احمد بلور، جمعیت علمائے اسلام کے حاجی غلام علی، پاکستان پیپلز پارٹی کے ارباب ظاہر شاہ، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق رہنما بے نظیر بھٹو بھی اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
1988 کے عام انتخابات میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے کامیابی حاصل کی تھی اور اے این پی کے غلام احمد بلور کو شکست دی تھی۔
اسی حلقے پر 1990 کے عام انتخابات میں اے این پی کے غلام احمد بلور نے پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے ) کی متفقہ امیدوار بے نظیر بھٹو کو 12000 سے زائد ووٹوں سے شکست دی تھی جبکہ اسی حلقے سے 1993 کے انتخابات میں پی پی پی کے سید ظفر علی شاہ نے غلام احمد بلور کو شکست دے کر یہ سیٹ اپنے نام کی تھی۔
1997 کے انتخابات میں بھی اسی سیٹ پر غلام احمد بلور نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار شبیر احمد نے یہ سیٹ اپنے نام کی تھی اور اے این پی کے عثمان بشیر بلور کو شکست دی تھی۔
بعد ازاں غلام بلور نے یہ سیٹ دوبارہ حاصل کی اور2008 میں پی پی پی کے ایوب شاہ کو تقریبا پانچ ہزار ووٹ سے شکست دی تھی۔
یہ سیٹ 2013 میں اس وقت دوبارہ خبروں کی زینت بنی جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس حلقے سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور انتخابات میں غلام احمد بلور کو تقریبا 80 ہزار ووٹ سے زائد کی شکست دی۔
تاہم بعد میں عمران خان نے سیٹ چھوڑ دی اور ضمنی انتخابات میں غلام بلور کامیاب ہوگئے جنہوں نے پی ٹی آئی کے گل بادشاہ کو تقریباً 60 ہزار ووٹ سے شکست دے دی تھی۔
2018 کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی نے اے این پی کے حاجی غلام بلور کو تقریبا 50 ہزار ووٹ سے شکست دے کر یہ سیٹ اپنے نام کی تھی۔
کیا عمران خان کو شکست ہو سکتی ہے؟
مبصرین کے مطابق یہ حلقہ پشاور کا اہم ترین حلقہ ہے جہاں سے ماضی میں ملک اور صوبے کے بڑے سیاسی رہنما انتخابات لڑ چکے ہیں۔
محمود جان پشاور کے صحافی ہیں اور اس حلقے کے رہائشی بھی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ اس حلقے سے اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات جیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان اس شہر کی سیاست میں داخل ہو گئے اور عوام کو ایک نئی امید دکھائی کہ دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کو ترقی ملے گی اور لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گے، تو سب سے پہلے رسپانس بھی پشاور سے دیا گیا تھا۔‘
محمود جان نے بتایا ،’ماضی میں اس شہر میں اے این پی شدت پسندوں کے ٹارگٹ میں رہی ہے اور جس وقت عمران خان نے یہاں سے الیکشن جیتا تھا تب اے این پی کو انتخابی مہم کا وہ موقع نہیں دیا گیا تھا جو ملنا چاہیے تھا۔‘
’پرویز خٹک جب وزیر اعلیٰ تھے اور زیادہ تر نوجوانوں کی حمایت جب پی ٹی آئی کو حاصل تھی تو پی ٹی آئی نے اسی دور میں وفاقی حکومت بھی بنائی۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے صوبے میں جب پی ٹی آئی کو کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو صوبائی حکومت یہی کہتی تھی کہ وفاق میں چونکہ کسی اور پارٹی کی حکومت ہے اس لیے وفاق انہیں کام نہیں کرنے دیتا۔‘
’پی ٹی آئی کے دور میں کچھ نہ کچھ کام ہوا ہو گا تاہم ملک کو چلانے اور صوبائی ادارے مضبوط کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ قانون سازی ہوئی ہے لیکن قانون سازی سے اہم اس پر عمل درآمد ہے۔‘
’لوگوں کے ذہنوں میں عمران خان کا پرانا بیانیہ موجود تھا اور انہوں نے عوام کو مصروف بھی رکھا ہے۔ کسی بھی غلطی کا جو بھی جواز انہوں نے پیش کیا ہے تو ان کے ورکرز نے اسے قبول کیا ہے۔‘
غلام احمد بلور کے معاملے میں دیکھا جائے تو ’نیوٹرل لوگ بھی اب عمران خان کے بیانیے کو خرید رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو امریکہ کی سازش پر اقتدار سے ہٹایا گیا ہے۔‘
محمود جان کے مطابق ’میں سمجھتا ہوں کہ اس حلقے میں عمران خان کی مقبولیت اب بھی موجود ہے کیونکہ انہوں نے کوئی نہ کوئی بیانیہ عوام کے سامنے رکھا ہے تاہم اے این پی سمیت باقی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی خاص بیانیہ موجود نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم محمود جان سمجھتے ہیں کہ اب چونکہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد موجود ہے، تو عمران خان کے لیے یہ حلقہ جیتنا بالکل آسان بھی نہیں ہو گا۔ ’عوام کا موڈ جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ یہی ہے کہ عمران خان شاید غلام بلور کو ہرا دیں گے۔‘
لحاظ علی پشاور میں صحافی ہیں اور سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کی طرف سے مہم شروع کی جاتی ہے تاہم اس مرتبہ ضمنی انتخابات کے لیے سیاسی مہمات کسی بھی جماعت کی طرف سے اتنی پر اثر نہیں تھیں۔
’2013 اور 2018 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو عمران خان جیت چکے تھے تاہم 2013 کے ضمنی انتخابات میں جب عمران خان نے حلقہ چھوڑا تو غلام بلور کامیاب ہوئے۔‘
’پی ٹی آئی کو اگر دیکھا جائے تو دیہی علاقوں کے مقابلے میں وہ شہری علاقوں میں زیادہ مقبول ہے اور عمران خان کا زیادہ ٹارگٹ نوجوان ووٹرز اور خواتین رہی ہیں۔‘
’اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور میں پی ٹی آئی کو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن تھوڑا بہت پی ٹی آئی نے ساکھ بحال کی ہے۔‘
لحاظ علی کے مطابق ’عمران خان جب بھی یہاں کسی حلقے سے امیدوار رہے تو انہوں نے وہ حلقہ جیتا ہے۔‘