احتجاج کا حق بھی مشروط ہے: چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف وزارت داخلہ کی توہین عدالت درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے۔

ایک پولیس اہلکار اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کے باہر گشت کر رہا ہے (اے ایف پی/ فائل)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعرات کو کہا کہ عدلیہ کا کام توازن رکھنا ہے اور احتجاج کا حق بھی مشروط ہے اس لیے کسی سیاسی لیڈر نے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف لانگ مارچ روکنے اور وزارت داخلہ کی توہین عدالت درخواست کی سماعت آج ہوئی۔ 13 اکتوبر کو وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے اور نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا: ’مفاہمت کے لیے اقدامات ہونے چاہییں۔ ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں۔ ہم لیول پلیئنگ فیلڈ (سب کے لیے یکساں مواقع) کو یقینی بنائیں گے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آپ رپورٹوں کا جائزہ لیں اور اگر کچھ ہوا تو دوبارہ عدالت آ جائیں، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں۔ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا کام توازن رکھنا ہے۔ احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔ کسی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔‘

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت سے کہا کہ وزارت داخلہ کی توہینِ عدالت کی درخواست ہے۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی۔

’25 مئی کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود عمران خان نے کارکنوں کو ڈی چوک کی کال دی تھی۔ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیے گئے تھے۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ سری نگر ہائی وے کا گراؤنڈ انہوں نے خود مانگا تھا۔ کارکنان کال پر ڈی چوک کی طرف آ گئے۔ کارکنان ریڈ زون کی طرف آئے تو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔

مظاہرین کے ریڈزون کی طرف آنے پر 25 مئی کی رات متفرق درخواست دائر کی۔ متفرق درخواست میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی استدعا کی۔‘

اٹارنی جنرل نے 25 مئی کا عدالتی حکم نامہ بھی پڑھ کر سنایا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران وکلا تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں تھے۔

25 مئی کا عدالتی حکم کیا تھا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو حکم نامہ پڑھ کر بتایا کہ عدالتی حکم نامہ میں کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا۔ عدالت نے پی ٹی آئی لیڈر شپ کو اپنے کارکنان کو پرسکون رہنے کی بھی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کی۔

رپورٹیں طلب کیں تو پی ٹی آئی لیڈر شپ نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی۔ بعد ازاں متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ مجھے ان رپورٹوں کی کاپی نہیں مل سکی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹوں کی کاپی آپ کو فراہم کی جائے گی۔ آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا ان کی عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا: ’عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں۔ عمران خان اپنی تقریروں سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے خود اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاسی میدان کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کا جم غفیر پرجوش ہے۔

چیف جسٹس نے کہا: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا: ’آپ ریاست ہیں آپ قانون کے مطابق صورت حال سے نمٹ سکتے ہیں۔ شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہیں۔ آپ شہری علاقوں میں جہاں خطرات ہیں وہاں اقدامات کریں۔‘

چیف جسٹس نے سکیورٹی اداروں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیے گئے ہیں۔ 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے۔ عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپریس چوک پہ بھی میرے خیال میں وہ 200 تین سو لوگ مقامی تھے۔ وہ لوگ مظاہرین کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس چیز کو دوبارہ دہرا رہے ہیں؟‘

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں۔ ابھی تو کوئی ہجوم نہیں ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا: ’ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آ کر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا: ’کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں؟ انتظامیہ اپنے آپ کو صورت حال کے لیے مکمل تیار کرے۔ جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہو گی تو مداخلت کریں گے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان کی پولیس اسلام آباد آ چکی ہے۔ صورت حال بہت خراب ہے۔ عوام کا سیلاب آ سکتا ہے۔

اس پہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ پہلے رپورٹوں کا جائزہ لے لیں۔

’آپ ایڈوانس میں ایسی صورت حال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے۔ جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آ سکتے ہیں۔‘

عدالت نے آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد، وزارت داخلہ اور چیف کمشنر کو رپورٹیں اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت آئندہ 26 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان