پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکلا سے کہا ہے کہ پچیس مئی کو عدالت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گی۔
چیف جسٹس نے بدھ کو توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا سے کہا کہ ’آپ نے عدالت کا اعتماد توڑا ہے۔ جب حکومت نے گراؤنڈ تک جانے کا راستہ دیا تھا تو پھر آگے جانے کی کیا ضرورت تھی؟‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے پی ٹی آئی کی یقین دہانی پر عدالت کی طرف سے حکومت کو ہدایت دی تھی۔‘
’وکلا کو ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہونا چاہیے تھا۔ رات دس بجے تک تو آگ لگ چکی تھی۔ کیا عدالت اب عمران خان سے پوچھے کے کیا ہوا تھا؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے مطابق انہیں کسی یقین دہانی کا علم نہیں تھا۔ عمران خان نے عدلیہ کے احترام کا بھی جواب میں ذکر کیا ہے۔ عدالت اس کیس میں بہت تحمل سے کام لے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالت کے پاس موجود مواد کے مطابق عمران خان کو نوٹس ہونا چاہیے لیکن عمران خان کو پھر بھی وضاحت کا موقع دے رہے ہیں۔ نیا جواب عمران خان کے دستخط کے ساتھ ہونا چاہیے۔‘
اس موقع پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وکلا نے کبھی نہیں کہا تھا کہ قیادت سے رابطہ نہیں ہوا تھا۔
’واضح یقین دہانی پر عدالت نے وکلا پر اعتماد کیا تھا۔ جلسے کے مقام کے حوالے سے صرف ایچ نائن گراؤنڈ کا کہا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ایچ نائن جانے والے راستے بند ہیں۔ عدالتی حکم پر حکومت نے رکاوٹیں ہٹا دی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو تحفظ دیا تھا، لیکن تحریک انصاف نے عدالتی حکم کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ واضح یقین دہانی کرائی گئی کہ املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا جس کے بعد ہم نے اعتبار کیا تھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کروا کر بہانے نہیں کیے جاتے۔ ’ایچ نائن سے آگے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دو وکلا کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔ ہم اپنا قلم آئین کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دس ہزار بندے بلا کر دو لاکھ لوگوں کی زندگی اجیرن نہیں بنائی جاسکتی۔ فیض آباد دھرنے کے دوران ایمبولینس میں لوگ مر گئے تھے۔ جہموریت کو ماننے والے اس طرح احتجاج نہیں کرتے۔‘
ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہنے والی سماعت
وزارت داخلہ کی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست 25 مئی کو عدالتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔
اس درخواست پر بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی نمائندگی کر رہے ہیں کیونکہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے نوٹس نہیں کیے تھے صرف جواب مانگے تھے۔ عدالت نے وکلا کے جمع کرائے گئے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
اسی دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے وقت مانگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔ عمران خان نے جواب میں عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’فیصل فرید چوہدری کے مطابق ہدایت اسد عمر سے لی تھیں۔ فیصل چوہدری کے مطابق ان کا عمران خان سے رابطہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بابر اعوان کے مطابق عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 25 مئی کو پہلے اور دوسرے عدالتی احکامات میں کتنی دیر کا فرق ہے؟
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پہلا حکم دن 11 بجے دیا گیا، دوسرا شام چھ بجے کا تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کے لیے ہی تھا۔
’عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے۔ اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی۔ عدالت جاننا چاہتی ہے کہ وکلا کی لیڈر شپ کو کیا بتایا؟‘
چیف جسٹس نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا۔ دونوں وکلا نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی۔ پھر عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا؟
’یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے اور عمران خان نے اب تفصیلی جواب کا وقت مانگا ہے۔‘
اکتیس اکتوبر کو عمران خان نے کیا جواب جمع کرایا تھا؟
عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بذریعہ وکیل دو صفحے کا جواب عدالت میں جمع کرایا تھا۔
جواب میں عمران خان نے سپریم کورٹ کو کرائی یقین دہانی سے لا علمی کا اظہار کیا۔
عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے عدالت سے تین نومبر تک کی مہلت مانگتے ہوئے لکھا تھا کہ ’پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے میری طرف سے کرائی کسی یقین دہانی کا علم نہیں۔ عدلیہ کا احترام ہے سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘