حکومت نے ایف آئی اے کو طاقتور بنانے کے لیے ادارے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت جعلی خبر پر چار سال قید بھی ہو سکتی ہے۔
یہ خبر سامنے آنے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق ایف آئی کے قانون میں تبدیلی پر صحافی برادری و دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے۔
صحافی کے سوالات پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ اگر بل کے ذریعے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگے گی تو حکومت بل کو واپس لے لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں ایسی ہے جس کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے نجی زندگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اندیشہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کو نقصان نہ پہنچے۔ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے میڈیا اور صحافتی تنظیمیں ہماری رہنمائی کرے۔‘
ایک سوال جس میں پوچھا گیا کہ ’سوشل میڈیا اختیارات میں منتقلی حکومت لا رہی ہے یا کوئی اور لا رہا ہے؟‘
اس پر وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ ’بل تو پارلیمنٹ میں آخر میں حکومت ہی لا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے متعلق ایف آئی اے کو اختیارات منتقلی پر مباحثہ ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ سے پوچھا کہ وہ اس بِل کے بارے میں کیا کہیں گے تو انہوں نے کہا کہ ’ہم پہلے بھی آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے عدالتوں میں گئے تھے جب 2016 میں قانون آیا اور جب گذشتہ حکومت نے پیکا قوانین میں سختی کی تو اس کے خلاف ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا۔‘
انہوں نے کہا ’جو آئین نے حق دیا ہے ان قوانین سے ختم نہیں کیا جا سکتا، حکومت کو چاہیے کہ ہم سے مشاورت کرے تاکہ جامع پالیسی بنائے جا سکے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ جب کوئی قانون ہی نہیں ہو گا تو سوشل میڈیا پر جو الزام تراشی اور جھوٹی خبروں کا سلسلہ ہے پھر وہ کیسے رُکے گا؟
انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشل میڈیا میں صحافیوں کے بارے میں ٹرولنگ کی جاتی ہے، ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، ان چیزوں کا تو سدباب ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھی پہلے مشاورت سے پالیسی مرتب کی جائے۔‘
سوشل میڈیا قانون میں کیا ترمیم کی جا رہی ہے؟
وفاقی کابینہ نے 27 اکتوبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں ایف آئی اے ایکٹ میں سمری سرکولیشن کے ذریعے مزید ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔ اب ایف آئی اے ایکٹ میں ترمیم کی حتمی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے گی۔ پارلیمنٹ سے ترمیم کی منظوری کے بعد ایف آئی اے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پر کاروائی کر سکیں گے۔
سمری میں کہا گیا کہ نفرت انگیز مواد، اداروں میں بغاوت پر اکسانے جیسے معاملات سوشل میڈیا پر بہت زیادہ آ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غلط خبروں کی بھی بھرمار ہے۔ غلط خبریں ریاست کے اداروں کے اہلکاروں میں بغاوت کو جنم دے سکتی ہیں۔ غلط خبریں کسی گروہ اور کمیونٹی کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا سکتی ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ پانچ سو پانچ ایف آئی اے کے ایکٹ میں شامل نہیں اس لیے اس شق کو شامل کیا جائے۔
مزید لکھا گیا تھا کہ ترمیم کے بعد سوشل میڈیا پر کسی قسم کی جعلی خبر اور افواہ پر کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کا بھی ہو گا۔ پہلے یہ اختیار صرف پولیس کے پاس تھا۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس قانون کےتحت خلاف ورزی کی صورت میں سات سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔