اتوار کو میلبرن کے تاریخی گراؤنڈ میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کا نتیجہ جو بھی نکلے، پاکستانی ٹیم کے ایک کھلاڑی کے لیے یہ ورلڈ کپ ہمیشہ یادگار رہے گا۔
ہم بات کر رہے ہیں 24 سالہ شاداب خان کی جنہوں نے اس موقعے پر پاکستانی ٹیم کی کشتی کو سنبھالا دیا جب بیچ بھنور میں اس کے بچ نکلنے کے امکان انتہائی کم تھے۔
ورلڈ کپ کے آغاز میں انڈیا اور زمبابوے سے شکست کے بعد شاداب خان نے ہی نیدرلینڈز کے خلاف تین وکٹوں سے فتح میں اہم کردار ادا کیا اور پھر جنوبی افریقہ کے خلاف 22 گیندوں پر 52 رنز کی دھواں دھار بلے بازی کے بعد صرف 16 رنز کے عوض دو اہم وکٹیں لے کر انہوں نے نہ صرف پاکستان کو یہ میچ جتوایا بلکہ مین آف دی پلیئر بھی قرار پائے۔
جنوبی افریقہ کی نیدرلینڈز کے ہاتھوں حیران کن شکست نے پاکستان کو وہ موقع فراہم کیا جس کی وہ تاک میں تھا۔
شاداب خان کو اس ورلڈ کپ کے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا ہے اور وہ اگر فائنل میں پاکستان کے لیے اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو وہ یہ ایوارڈ حاصل بھی کر سکتے ہیں۔
جب ان کے ساتھی کھلاڑی اور کوچز شاداب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ایک بات خصوصی طور پر کہتے ہیں۔
کپتان بابر اعظم کہتے ہیں کہ ’وہ ٹیم میں ایک زبردست قسم کی انرجی لاتے ہیں۔‘
چاہے ورلڈ کپ کے میچز ہوں یا ٹریننگ شاداب کی یہ انرجی ہمیشہ پاکستانی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتی نظر آتی ہے۔
ٹیم کی لائف لائن
پاکستان کے کئی کھلاڑیوں کی طرح شاداب خان کا تعلق بھی ایک متوسط گھرانے سے تھا۔
ضلع میانوالی کے پتھریلے میدانوں میں کرکٹ کھیل کر بڑے ہونے والے شاداب خان اس علاقے سے تعلق رکھنے والے واحد کرکٹر نہیں ہیں۔ ان سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق کپتان مصباح الحق بھی اس علاقے سے سامنے آنے والے بڑے نام رہ چکے ہیں۔
شاداب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے ہی اتنے محنتی رہے ہیں۔
ان کے کلب کوچ سجاد احمد کہتے ہیں: ’شاداب کی کرکٹ سے محبت ناقابل بیان ہے۔ وہ نو بجے سونے کے عادی تھے اور سورج نکلنے سے پہلے ہی میدان میں پہنچ جاتے تھے۔ یہ کئی سال تک ان کی روٹین رہی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پریکٹس کر سکیں۔‘
یہ سجاد احمد ہی تھے جنہوں نے شاداب کو یہ مشورہ دیا کہ وہ صرف بلے بازی پر فوکس نہ رکھیں بلکہ آل راؤنڈر بننے پر توجہ دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کلب کرکٹ کھیل کر جب شاداب نے جونیئر ورلڈ کپ 2016 میں پاکستان کی نمائندگی تو وہ اس ٹورنامنٹ میں مشترکہ طور پر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑی تھے جنہوں نے 11 وکٹیں اپنے نام کیں۔
اس سے اگلے سال پاکستان سپر لیگ کی فرینچائز اسلام آباد یونائیٹڈ نے انہیں منتخب کیا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے سٹریٹیجی مینیجر حسن چیمہ کہتے ہیں ’ہم پی ایس ایل 2017 کے ڈرافٹ میں کھلاڑی منتخب کر رہے تھے تو سب ٹیمیں شاداب خان کا نام آگے منتقل کر رہی تھیں تو میں نے مصباح الحق سے ان کے بارے میں پوچھا، مصباح نے مجھے بتایا کہ شاداب کے اندر وہ آگ اور جنون ہے جو انہوں نے کئی سال سے کسی کھلاڑی میں نہیں دیکھا۔ چھ سال بعد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اندر کی لگن اور ان کا جنون ٹیم کے لیے کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔‘
لیکن صرف شاداب کی کرکٹ کی لگن کے بارے میں بات کرنا ان کے ٹیلنٹ کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔
ایک لیگ سپنر کے طور پر ان کے پاس کئی ورائیٹیز ہیں جن سے وہ آسٹریلوی وکٹوں پر بلے بازوں کو پریشان کرتے ہیں۔
فیلڈنگ کرتے ہوئے بھی ان کا انداز کافی جارحانہ دکھائی دیتا ہے۔ تینوں شعبوں میں ان کی یہ صلاحیت پاکستان کے لیے ٹیم منتخب کرنے میں سلیکٹرز کے لیے آسانی کا باعث بنتی ہے۔
یہ 2017 کی بات ہے جب پاکستانی ٹیم کے اس وقت کے کوچ مکی آرتھر شاداب کو ٹیم میں لائے۔
برطانیہ میں مقیم مکی آرتھر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے شاداب کو ٹیم میں شامل کیا تو وہ بہت پرجوش کھلاڑی تھے۔ وہ بہت جان لگاتے تھے اور تینوں شعبوں کے ماہر تھے۔
کرکٹ کے میدان میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کے تجربے میں اضافے نے انہیں ایک مکمل کرکٹر بنا دیا ہے۔
مکی آرتھر کا مزید کہنا ہے کہ ’شاداب خان پاکستان کے لیے ایک میچ ونر ہیں۔ میں نے انہیں ایک لڑکے سے ایک بڑا کھلاڑی بنتے دیکھا ہے۔‘
میدان میں شاداب کی کارکردگی
شاداب کا بین الااقوامی کرکٹ میں ڈیبیو ایک خواب سے کم نہیں تھا جب 2017 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ میں انہیں مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔
اسی سال انڈیا کے خلاف چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل بھی شاداب کے بہترین لمحات میں سے ایک تھا جس میں انہوں نے یوراج سنگھ کو پویلین کی راہ دکھائی۔
ان کی ایل بی ڈبلیو کی اپیل پر امپائر رچرڈ کیٹل برو کچھ متاثر نہ دکھائی دیے لیکن شاداب نے کپتان سرفراز احمد کو ریویو لینے پر قائل کیا اور وہ درست ثابت ہوئے۔ شاداب اس فتح کے بعد پاکستان کے ہیرو بن گئے۔