یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ہم نے دو سال قبل نادرا کے آن لائن پورٹل کی مدد سے اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کروائی تھی۔ اس وقت ہم نے اپنا تجربہ ایک بلاگ کی صورت میں تحریر کیا تھا۔
تب ہم چین میں مقیم تھے۔ ہم نے اپنی درخواست جمع کروانے کے لیے جو پاپڑ بیلے تھے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔
نادرا ہماری انگلیوں کے نشان قبول کرنے سے انکاری تھا، ہم کبھی فارم اپنے دوست کو تصدیق کے لیے ای میل کر رہے تھے، کبھی اس کا پرنٹ نکال رہے تھے تو کبھی اسے سکین کر کے واپس اپ لوڈ کر رہے تھے اور اس سب میں ہمارے چار پانچ چکر باہر کے لگ چکے تھے جبکہ وعدہ آسانی کا تھا۔
ہمیں وہ خواری اٹھاتے ہوئے اس سے پہلے نادرا کے دفتر میں اٹھائی ہوئی خواری یاد آ رہی تھی۔ ہم خود کو کوس رہے تھے کہ وہی کیوں نہ اٹھا لی۔
خیر سے اب ہم شادی شدہ ہیں۔ ہمیں شادی کے بعد نیا شناختی کارڈ بنوانا تھا لیکن جو خواری ہم اٹھا چکے تھے دوبارہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔
اچھی بات یہ تھی کہ ہم پاکستان میں موجود تھے۔ ہم سارا کام نادرا کے دفتر جا کر مکمل کر سکتے تھے۔ ہمیں اس میں کچھ مشکلات درپیش تھیں۔
ایک تو اس کے لیے صبح سویرے اٹھنا پڑتا۔ پھر گھر سے باہر نکلنا پڑتا۔ پہلے ٹیکسی والے کا اور پھر نادرا کے دفتر میں موجود سٹاف کا عجیب و غریب رویہ برداشت کرنا پڑتا۔ پھر وہ کوئی بھی اعتراض لگا کر ہمیں مزید خوار کرتے تو ہمیں افسوس ہوتا۔
ہمارا کام آن لائن بھی ہو سکتا تھا۔ اس میں بھی مسئلہ خواری کا تھا۔ ہم نے پھر بھی اللہ کا نام لیا اور نئی آن لائن درخواست شروع کر لی۔
ہم مرے ہوئے ہاتھوں سے درخواست فارم پُر کر رہے تھے۔ ہم نے مطلوبہ خانوں میں اپنے شوہر کی تفصیلات ڈالیں۔ انہیں اپنے نئے خاندان کا سربراہ بنایا۔ اس سے قبل ہمارے سربراہ ہمارے والد تھے۔ اب یہ منصب ہمارے شوہر کے نام ہو چکا ہے۔ نادرا کے مطابق صرف مرد ہی خاندان کا سربراہ بن سکتا ہے۔
ہمیں اپنی درخواست جمع کرواتے ہوئے معلوم ہوا کہ ہم نادرا کے ریکارڈ میں موجود اپنی والدہ کے کوائف میں تبدیلی کر سکتے ہیں جبکہ والد کے کوائف تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ہم یہ دیکھ کر کافی حیران ہوئے۔
اس کے پیچھے جانے کیا منطق ہے۔ ہم تو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہماری والدہ ہماری پیدائش پر بھی وہی تھیں، آج بھی وہی ہیں اور ہمیشہ وہی رہیں گی۔
خیر، اس بار ہمیں زیادہ خواری نہیں اٹھانی پڑی۔ اس دفعہ ہم پاکستان میں تھے۔ ہم نے دو سال قبل اپنے شناختی کارڈ کی درخواست چین سے جمع کروائی تھی۔
چین بے شک ہمیں اس دنیا میں جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے لیکن اس جنت کے ٹکڑے پر گوگل نہیں چلتا۔ ہمارے فون میں موجود زیادہ تر ایپس گوگل پلے سروسز کی مدد سے چلتی ہیں۔ ہمارا چینی فون ان سروسز کو ہی سپورٹ نہیں کرتا۔
نادرا نے آن لائن درخواست جمع کروانے والوں کی سہولت کے لیے چند موبائل فون ایپلیکیشنز متعارف کروائی ہوئی ہیں۔ ہم چین میں رہتے ہوئے ان کا استعمال نہیں کر پا رہے تھے۔
اس دفعہ ہم نے اپنی بہن کے فون میں نادرا کی دستاویزات اور انگلیوں کے نشانات کے لیے ایپ انسٹال کروائی، اس پر اپنا اکاؤنٹ لاگ اِن کیا اور اس پر اپنی انگلیوں کے نشانات درج کروائے۔ وہ فوراً قبول ہو گئے۔
ہمارے لیے یہ بالکل ایسے تھا جیسے جادو۔ پچھلی دفعہ ہمیں بار بار اپنی انگلیوں کے نشانات کا اندراج کروانا پڑ رہا تھا۔ اگر ہم یہ ایپ چین میں استعمال کر سکتے تو ہمیں اتنی پریشانی نہ اٹھانی پڑتی۔
اس کے بعد ہم نے اپنا درخواست فارم اپنے دوست کو تصدیق کے لیے ای میل کیا۔ اس نے اگلے دن فارم تصدیق کر کے واپس بھیج دیا۔ اس پورے عمل میں یہ واحد مرحلہ ہے جس کے لیے درخواست گزاروں کو چکر کاٹنے پڑ سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو دن بعد ہمیں اپنا نیا شناختی کارڈ موصول ہو گیا۔ ہم نے یہ کارڈ اپنے والد کے نام پر ہی جاری کروایا ہے۔ نادرا نے پچھلے سال ایک پالیسی میں خواتین کو یہ اجازت دی تھی کہ وہ چاہیں تو اپنے شناختی کارڈ پر اپنے والد کا نام برقرار رکھیں یا اسے شوہر کے نام سے تبدیل کروا لیں۔
اس سے بظاہر ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ شادی کے بعد عورت اپنے شوہر کے ساتھ نیا خاندان بناتی ہے جس کا سربراہ زیادہ تر کیسز میں شوہر ہی ہوتا ہے۔ تاہم، اس آپشن کا آزادانہ استعمال کر کے خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں۔
اس سے پہلے نادرا ایک غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت خواتین کے شناختی کارڈ پر ان کے والد کے نام کی جگہ ان کے شوہر کا نام درج کر دیتا تھا۔
اس کے بعد ہم نے 8009 پر اپنے شوہر کا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ان کے صرف اور صرف اپنے ہونے کی تصدیق بھی کر لی۔
آپ بھی یہ تصدیق آج ہی کریں، لیکن اگر کسی نے اپنی شادی نادرا میں رجسٹر ہی نہ کروائی ہو تو اس کا پتہ کیسے چلے گا؟ نادرا کو اس بارے بھی سوچنا چاہیے۔