چند روز قبل ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحبہ نے رابطہ کیا کہ وہ ماحول پر لکھنے والوں سے رابطے کر رہی ہیں کیونکہ وہ کتاب لکھنا چاہتی ہیں کہ ماحولیاتی رپورٹنگ میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔
دن اور وقت کا تعین ہوا اور انٹرویو کا آغاز ہوا۔ انٹرویو کے دوران بات ہوئی کہ پاکستان میں ماحولیاتی رپورٹنگ کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟
میں نے وضاحت کے لیے چند مثالیں دیں۔ میں نے کہا کہ عطا آباد میں پہاڑ گرتا ہے اور اس واقعے میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن میڈیا میں اس بات پر ہلچل نہیں مچی کہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور کیوں پہاڑ گرا۔
میڈیا اس وقت پہنچنا شروع ہوا جب پہاڑ گرنے کے باعث دریا پر بند بن گیا اور کئی دیہات زیر آب آ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کو ملانے کا واحد زمینی راستہ ہے وہ بھی زیر آب آ گئی۔
عطا آباد جھیل کی خوبصورتی پر تو ڈرون اڑا کر ویڈیو بنائی جاتی ہے اور اس کی خوبصورتی کو میڈیا چلاتا بھی ہے۔
رپورٹس دکھائی جاتی ہیں کہ کیسے لوگ سردی میں جمی اس جھیل پر سیر و تفریح کر رہے ہیں لیکن کسی نے اس پر رپورٹ نہیں چلائی کہ کیسے عطا آباد کے کنارے مہنگا ہوٹل اسی خوبصورت اور دلکش جھیل کو آلودہ کر رہا ہے۔
صاف شفاف جھیل جہاں دور دور سے لوگ آتے ہیں لیکن کیسے وہ ہوٹل جس کا ایک رات کا کرایہ 25 سے 35 ہزار روپے ہے اسی ہوٹل سےنکلنے والی گندگی نے جھیل میں ایک کالی لکیر پھیلا دی ہے۔
چلیں جھیل سیف الملوک کا چکر لگا لیں۔ 10 سال قبل ایک ایسی جھیل جو اپنی اصل حالت میں تھی اور ماحول ایسا کہ سانس لینے کا مزہ آئے۔
اس سے آگے نکلے تو بابوسر ٹاپ پہنچے۔ چند کھوکھے جہاں چائے اور پکوڑے مل رہے تھے۔
چاروں طرف نظر دوڑائیں تو برف سے ڈھکی چوٹیاں جو واقعتاً سوئٹزرلینڈ سے کم نہیں تھیں۔
اب ناران جیسے سامنے آتا ہے تو جیسے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے۔
دور دور تک خیمے، ڈیزل کی بدبو، گندگی، جس کو پانچ مرلے ملے اس نے جیسا تیسا ہوٹل کھڑا کر لیا!
جھیل سیف الملوک جو صاف شفاف تھی کہ اس میں آس پاس برف سے ڈھکے پہاڑوں کا عکس نظر آتا تھا اس میں گندگی نظر آنے لگی۔
ڈیزل سے چلنے والی مشہور وِلیز جیپیں جو پہلے جھیل سے دور رک جایا کرتی تھیں جھیل کے قریب پارک ہونے لگیں۔
بابوسر ٹاپ پر سیمینٹ کے سٹرکچر کھڑے ہیں۔ وہ ٹاپ جہاں آپ کہیں بھی کھڑے ہو جائیں اور آپ پہاڑوں کے نظارے لے سکتے تھے اب آپ کو ایسی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے جہاں سے آپ کو پہاڑوں کا نظارہ مل سکے۔
خیر یہ تو انٹرویو کی بات تھی۔ لیکن آپ اسلام آباد کا حال ہی دیکھ لیجیے۔
دارالحکومت جو نہ تو رقبے کے اعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ سنبھالا نہ جا سکے، اگر سنبھالنا چاہیں تو، اور نہ ہی آبادی کے لحاظ سے، لیکن یہاں بھی کیا ہو رہا ہے؟
مارگلہ کے پہاڑوں پر ہوٹل تعمیر کیے گئے جن میں نکاسی کا کوئی مربوط انتظام نہیں ہے۔
مارگلہ ہلز پر کیا، اس کے دامن میں بنے ہوٹلوں کا حال دیکھ لیں۔
بڑے بڑے ہوٹل بن چکے ہیں لیکن ان کا گند کہاں جا رہا ہے انتظامیہ کو کوئی فکر نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں سے زیادہ ہوٹلوں کو اجازت تو مل گئی لیکن اجازت نامہ دینے سے قبل کسی قسم کی سٹڈی نہیں کی گئی کہ ان ہوٹلوں کے قیام سے ماحولیات پر کیا اثر پڑے گا۔
اور یہی وجہ ہے کہ مارگلہ کے جنگلات اور اس میں بہنے والی صاف شفاف ندیوں کی آلودگی کی بڑی وجہ اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ ان ہوٹلوں کو ٹھہراتی ہے۔
کسی قسم کا مربوط انتظام نہ ہونے کے باعث ان بڑے بڑے اور نامی گرامی ہوٹلوں سے نکلنے والی گندگی نیچے صاف ندیوں میں ملتی ہے اور انہیں آلودہ کر رہی ہے۔
یہی نہیں بلکہ ان ہوٹلوں کی تیز روشن لائٹیں جنگلی حیات کو بھی اپنا مسکن چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ایک طرف ماحول کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے تو دوسری جانب سی ڈی اے اور انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینک کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔
ان ہوٹلوں کے قیام اور آلودگی کے بارے میں سی ڈی اے کہتی ہے کہ یہ کام ای پی اے کا ہے تو ای پی اے کہتی ہے کہ جہاں یہ ہوٹل تعمیر ہوئے ہیں وہ زمین سی ڈی اے کی ہے اور اس کی ذمہ داری سی ڈی اے کی ہے۔
ہم سب کی کوششوں ہی سے ماحول میں بہتری آ سکتی ہے اور صرف میڈیا پر انحصار کرنا یا صرف حکام ہی کو کہنا کہ وہ کچھ نہیں کرتے، اس سے کام مزید خراب ہوں گے۔
اگر ہم ہی جانتے بوجھتے اپنی جیپ واکنگ ٹریل پر لے کر آ جائیں تو اس میں حکام کیا کر سکتے ہیں؟
(ایڈیٹنگ: حسنین جمال)