پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں توہین مذہب کا الزام لگا کر ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کو ایک سال بیت چکا ہے۔
گذشتہ سال تین دسمبر، 2021 کو یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ پولیس نے اس کیس میں 100 سے زائد ملزمان کو پکڑا جبکہ سینکڑوں افراد سے تفتیش کی گئی۔
یہ مقدمہ پہلے گجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت رہا۔
پھر ملزمان کی گرفتاریوں کے بعد کوٹ لکھپت جیل، لاہور میں سماعت ہوتی رہی۔
اپریل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے واقعے میں چھ مجرمان کو سزائے موت جبکہ نو کو عمر قید کی سزا سنائی، جن میں سے بیشتر نے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔
مشتعل ہجوم سے پریانتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کرنے والے فیکٹری مینجر ملک عدنان، جنہیں سابق وزیراعظم عمران خان نے تمغہ شجاعت سے نوازا تھا، کہتے ہیں کہ انہوں نے دھمکیوں کے باعث دو ماہ قبل نوکری چھوڑ دی اور وہ اب بیرون ملک جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ادھر سیالکوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ حالات پہلے ہی معمول پر آ چکے ہیں اور ملزمان کو سزائیں ملنے سے لوگوں کے رویے بھی نارمل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کسی کو دھمکیاں ملنے کی اطلاع نہیں جبکہ فیکٹریوں میں معمول کے مطابق کام جاری ہے۔
واقعے کے بعد کی صورت حال
ملک عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس واقعے پر جس طرح حکومت اور ادارے متحرک تھے اس وقت لوگوں میں حیرانی کی کیفیت پائی جاتی تھی۔
’مگر وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ نارمل ہوتا گیاْ ملازمین دوبارہ اپنے کام پر لگ گئے، البتہ اس واقعے پر بعض کو افسوس بھی تھا مگر بعض اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔‘
ملک عدنان کے بقول انہیں مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں اور کئی ملازمین انہیں عجیب نگاہوں سے دیکھتے تھے۔
اس وجہ سے انہوں نے دو ماہ قبل ملازمت چھوڑ دی اور وہ بیرون ملک جانے کی تیاری میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کی جانب سے تمغہ شجاعت کے ساتھ ملنے والی رقم کے علاوہ انہیں کسی نے نہیں پوچھا وہ کس حالت میں ہیں۔‘
دوسری جانب پولیس ترجمان سیالکوٹ خرم شہزاد نے کہا کہ ’سیالکوٹ واقعہ ہائی پروفائل ہونے کے ساتھ پولیس کے لیے بھی بڑا کیس تھا اس میں تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پانچ ماہ میں ٹرائل مکمل کرایا گیا سینکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی اور عدالتوں میں پیش کیے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خرم کے بقول ’کیمروں، ویڈیوز اور جیو فینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے کوشش کی گئی کہ صرف واقعے میں ملوث ملزموں کو پکڑا جائے، جس کے بعد عدالت نے شواہد اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں ملزموں کوسزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائیں۔
’اس کے علاوہ جس کا جتنا جرم تھا اس لحاظ سے بھی سزا سنائی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس کی طرف سے یہ کیس مکمل ہوچکا اسی لیے اسے بند کر دیا گیا ہے، اب معاملہ عدالتوں میں ہے۔‘
اس واقعے کے بعد فیکٹری مالکان اور سپر وائزرز کو ہدایت کی گئی کہ آئندہ اس طرح کے حالات پیدا ہونے سے پہلے ہی پولیس کو اطلاع دی جائے اور وہ بھی لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کی مدد لینے پر آمادہ کریں۔‘
ملک عدنان کے مطابق ’پریانتھا کمارا کے بڑے بھائی اسی فیکٹری میں انہی کے عہدے پر کام کر رہے ہیں ان کی جگہ ان کے بھائی کو نوکری دے دی گئی تھی۔‘
ملزمان کو سزائیں
کیس میں گواہان کے بیانات قلم بند کرنے اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر اپریل میں فیصلہ سنایا گیا تھا۔
سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش کرنے والے فیکٹری مینجر ملک عدنان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
ڈی پی او سیالکوٹ حسن اسد کے بقول: ’پولیس نے 89 ملزمان کو گرفتار کیا جن میں نو نابالغ جب کہ 80 بالغ ملزمان تھے۔
تمام ملزمان کے چالان جمع کرکے عدالت میں جمع کروائے، پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے سینیئر آفیسرز پر مشتمل ٹیم تشکیل دی۔‘
عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں علیحدہ علیحدہ ٹرائل کیے۔ پراسکیوشن ٹیم نے 48 چشم دید گواہان اور ویڈیو شواہد پیش کیے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے ایک ملزم کو بری کردیا ہے جب کہ 88 کو سزا سنائی ہے۔ چھ ملزمان کو دو دو دفعہ سزائےموت سنائی گئی ہے اور دو دو لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایک ملزم کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ 57ملزمان کو دو دو سال قید بامشقت اور ایک ایک سال قیدبامشقت سنائی گئی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کیس میں 89 ملزمان پر فردجرم عائد کی تھی۔‘
ان کے مطابق ’ایک ملزم عدنان کو اعتراف جرم کرنے پر ایک سال کی قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی جس نے واقعےکی ویڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کی تھی جس میں ملزمان کے کردار کو درست قرار دیا گیا تھا۔‘
گواہان کو چیلنجز
اس کیس میں ملک عدنان کے علاوہ بھی کئی گواہان تھے، جنہیں دھمکیوں کی شکایات موصول ہوچکی ہیں۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر سیالکوٹ زاہد منڈ نے بتایاکہ جب ملزمان کی گرفتاریاں اور تفتیش شروع ہوئی تو بعض ملزمان کے ورثا نے دھمکیاں دیں جس سے گواہان کافی پریشان رہے۔
’اس وقت تو انہیں سکیورٹی فراہم کی گئی مگر پھر ہٹا لی گئی۔
’ایک گواہ تو دھمکیوں کے بعد کہیں اور منتقل ہوگیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ان کی گواہی بھی نہیں ہوسکی۔‘
زاہد منڈ کے مطابق انہیں بھی دھمکی آمیز خط موصول ہوئے اور کالز آئیں۔
’ایک ملزم کے بھائی اشتہاری تھے۔ انہوں نے کافی لوگوں کو دھمکایا۔ میں نے مقدمہ بھی درج کروایا تھا۔ ت
’ب تو میرے ساتھ بھی سکیورٹی تھی لیکن مقدمے کا فیصلہ ہوتے ہی سکیورٹی ہٹا لی گئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کئی گواہ ایسے تھے کہ ملزمان کے خوف سے انہوں نے گواہی کی حامی ہی نہیں بھری، بڑی مشکل سے لوگوں کو تیار کیا اور قائل کر کے شہادتیں کروائی گئیں۔