نہ تو کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی کسی کے جوں رینگی۔ بات کر دی گئی اور بات ختم ہو گئی۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے چند دن قبل پاپولیشن کونسل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی آبادی اس وقت 230 ملین ہے جو 2030 تک بڑھ کر 260 ملین سے زائد اور 2050 تک لگ بھگ 331 ملین تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے بڑے چلینجز میں ایک تو موسمی تبدیلی ہے، اور اس کے ساتھ دوسرا آبادی میں اضافے کا چیلنج ہے جن سے ان ممالک کو نمٹنا ضروری ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان ممالک کو خوراک، جنگلات اور زرعی پیداوار کے حوالے سے دشواری کا سامنا ہو گا جن کو موسمی تبدیلی نے پہلے ہی متاثر کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح دو فیصد ہے اور اس وقت پاکستان کی آبادی دنیا کی کُل آبادی کی تین فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہے جو 2050 تک 9.4 ارب اور 2100 تک دنیا کی آبادی بڑھ کر 10.4 اربن تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے اور اسلامی دنیا میں انڈونیشیا کے بعد دوسرا۔
پاکستان میں موسمی تبدیلی کے باعث زراعت، جنگلات، بائیو ڈائورسٹی اور خوراک متاثر ہوئے۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے جہاں 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور زراعت کو نقصان پہنچا وہیں آیندہ چند برسوں میں فوڈ سکیورٹی کے مسائل سر اٹھائیں گے۔
ایک طرف جہاں پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دنیا کی کُل آبادی بھی آٹھ ارب ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ وہ علاقے جہاں پہلے ہی سے موسمی تبدیلی کے باعث وسائل کی کمی کا سامنا ہے کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خوراک ہو یا پانی، بیٹریاں ہوں یا تیل سب وسائل میں کمی واقع ہو گی کیونکہ وسائل تو جتنے ہیں اتنے ہی رہنے ہیں لیکن دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور 2080 تک اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے بڑھ کر ساڑھے 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی بڑھتی آبادی ایک بڑا سماجی ایشو ہے جس کے باعث نہ صرف آئندہ برسوں میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ کھڑا ہو گا بلکہ معاشی عدم توازن، غربت، بدعنوانی اور ترقیاتی کاموں کو بھی متاثر کرے گی۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں آبادی کے اضافے سے پانی کی قلت سب سے بڑا مسئلہ ہے جو پیش آئے گا۔
ورلڈ بینک کے مطابق آبپاشی کُل زرعی اراضی کا 20 فیصد ہے جو عالمی خوراک کا 40 فیصد ہے۔
جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہو گا اسی طرح آبپاشی کے لیے مزید پانی درکار ہو گا۔
قیام کے وقت سے 2021 تک آبادی چار کروڑ سے بڑھ کر 22 کروڑ ہو گئی جبکہ اسی عرصے میں پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔
پانی کے علاوہ پاکستانی معیشت میں زراعت کا حصہ 1959 میں 53 فیصد تھا لیکن 2021 میں یہ کم ہو کر محض 19 فیصد رہ گیا ہے۔
اس کمی کے باعث برامدات میں 60 فیصد ہونے والے ٹیکسٹائل کو دھچکا لگا کیونکہ کاٹن کی پیداوار بہت کم ہو رہی ہے۔
اسی طرح گندم کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار کے حساب سے ساتویں نمبر پر ہے یہاں اس کی کمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے سے آلودگی میں اضافہ ایک اور بڑا مسئلہ ہے جو پاکستان کو درپیش ہے۔
پاکستان میں 22 فیصد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
لاہور کی فضا میں اتنی آلودگی ہے کہ اس کو خطرناک قرار دے دیا جائے۔
کب سے ہے یہ تو کہنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں فضا میں آلودگی کو جانچنے کا آغاز ہی 2017 میں ہوا۔
یہ کام بھی حکومت وقت نے نہیں بلکہ عام افراد نے شروع کیا اور جب پہلی بار آلودگی کے حوالے سے رپورٹ سامنے آئی تو اس پر بات ہونا شروع ہوئی۔
عالمی سطح پر ایئر کوالٹی انڈیکس اگر 50 یا اس سے کم ہو تو محفوظ قرار دی جاتی ہے۔
100 اور 150 کے درمیان بچوں اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔
150 سے زیادہ سب کے لیے مضر ہے اور اگر انڈیکس 300 سے تجاوز کر جائے تو اس کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں عالمی ادارے فضا میں آلودگی کو نہایت مضر صحت قرار دیتے ہیں تو وہاں پنجاب کی اے کیو آئی نظام اس کو moderately polluted یعنی تھوڑی سے آلودگی قرار دیتا ہے۔
عالمی معیار کے مطابق لاہور میں آلودگی خطرناک حد تک ہے جب کہ پنجاب کے اے کیو آئی کے مطابق ’خراب‘ ہے۔
یعنی زیادہ دیر تک باہر رہنے سے لوگوں کو شاید سانس لینے میں تکلیف ہو اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کو بے چینی محسوس ہو سکتی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں مسائل پہلے شروع ہوتے ہیں اور ان کے حل کے بارے میں بعد میں سوچنا شروع کیا جاتا ہے، ضروری ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح پر کنٹرول کرنے کے لیے فی الفور اقدامات اٹھائے جائیں۔
وقت ہے کہ معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو معاشی اور انسانی سکیورٹی کے حوالے سے اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک سو ملین نوجوان مزید ناامید ہو جائیں گے۔
ناامید نوجوان، پسی ہوئی خواتین، اذیت زدہ اقلیت اور لاڈ پیار سے رکھے گئے امرا پاکستان کی سیاسی معیشت اور سماجی ڈیموگرافی کا حصہ تو ضرور ہوں گے لیکن یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔