جہاز میں فرسٹ کلاس سیٹ کے فائدے اور غریب مسافر کا تجربہ

رات بھر کا جاگا ہوا تھا تو میں نے سیٹ پیچھے کی اور وہ بس پیچھے ہوتی ہی چلی گئی۔ مسافر ابھی آ رہے تھے تو لاش بننے میں شرم سی آئی اور تھوڑی سی ریکلائن کر کے میں بیٹھنے جیسا کچھ لیٹ سا گیا۔

مجھے لگا میں نشے میں ہوں، دوبارہ پوچھا، ’وہاٹ؟‘

’سر، وی ہیو اپ گریڈڈ یو ٹو فرسٹ کلاس۔‘ (سر ہم آپ کی اکانومی کلاس سیٹ فرسٹ کلاس میں بدل چکے ہیں۔)

دوسری مرتبہ پوچھ کے مجھے یقین آ گیا۔

اب کے میں نے سوچا وجہ پوچھ لوں، سحری کے وقت ہونے والا یہ معجزہ آخر ہوا کیسے؟ ایمریٹس کی فلپائنی خاتون سے میں نے پوچھا، ’مے آئی آسک وائے؟‘ (میں پوچھ سکتا ہوں ایسا کیوں ہوا؟)

تب انہوں نے بتایا کہ جب اکانومی کلاس کی بکنگ اوور لوڈ ہو جاتی ہے تو وہ لوگ کچھ مسافر فرسٹ کلاس کی طرف منتقل کر دیتے ہیں لیکن ۔۔۔۔ لیکن ان مسافروں میں ترجیح انہیں دی جاتی ہے جنہوں نے ٹکٹ مہنگا لیا ہو۔

اب مہنگے کرائے کی سادہ ترین سائنس یہ ہے کہ آپ عموماً جتنا پہلے بک کراتے ہیں اتنا کم پیسوں کا ٹکٹ ملتا ہے۔ آخری لمحات پہ بکنگ میں جہاز کا ٹکٹ اکثر مہنگا ترین ہوتا ہے۔

وقت اس خوشگوار حادثے کی پرورش کوئی دو ہفتے سے کر رہا تھا۔

میرا ویزہ آیا تو وہ بزنس والا تھا۔ اس کی چند شرائط تھیں جنہیں پورا کرنے میں دو تین دن کم از کم لگنے تھے۔ ریڈ سی فلم فیسٹیول کوریج کے لیے مجھے کاغذوں کے حساب سے 30 نومبر کو جدہ پہنچنا تھا۔ شاہ رخ خان نے یکم دسمبر کو میلے کے افتتاحی سیشن کے لیے آنا تھا۔

ٹکٹ بک ہو چکے تھے۔ مسافر رکاب میں پاؤں ڈالے، برجس کسے، فل گورا صاب بن کے بس گھوڑے کو ایڑ لگانے والا تھا کہ سناؤنی آ گئی۔

30  کے دن پتہ چلا کہ ویزہ آج پراسس نہیں ہو سکا، ایک دو روز مزید لگیں گے۔ اب کہنے کو وہ تھے دو تین ہی دن لیکن جس تکلیف دہ انتظار اور اذیت کے تھے ان کا اندازہ وہ صحافی کر سکتا ہے بس جو ایونٹ کوریج کے لیے پوری تیاری سے بیٹھا ہو لیکن کسی ٹیکنیکل وجہ سے میدان میں اتر نہ سکے۔

شاہ رخ خان اور اکشے کمار جدہ سے رخصت ہوئے تو حسنین جمال لینڈ کر سکے لیکن ۔۔۔ یہ سارا قصہ کیوں سنایا؟

اس لیے کہ پاکستان سے بالاخر نکلتے وقت ویزہ جب اوکے ہوا تو فلائٹ رات تین بجے کی تھی اور گیارہ بجے ٹکٹ خریدے گئے۔ تو اس پوری کوئیک سروس میں بہرحال جدے جانا کوئی سستا سودا نہیں تھا۔ ٹکٹ عام صورت حال کے برعکس ہمارے ٹریول ڈیپارٹمنٹ کو مہنگے ملے۔

جدہ سے واپسی پہ فلائٹ میں ٹرانزٹ تھا یعنی پہلے دبئی اترنا تھا اور چھ گھنٹے بعد اگلی فلائٹ تھی جو مجھے لے کر اسلام آباد جانی تھی۔

تو وہ جو اگلی فلائٹ تھی اس کے لیے دبئی کی صبح ساڑھے چار بجے میں لائن بھگت کر جب بورڈنگ پاس بڑھاتا تھا تو پھر وہ خاتون جو بھی کچھ کہتی تھیں مجھے لگتا تھا کہ میں نشے میں ہوں اور تب میں ان سے ری کنفرم کرتا تھا اور وجہ پوچھتا تھا کہ ’مے آئی آسک وائے؟‘

تو اس آرام دہ اتفاق کی پرورش پچھلے دو ہفتوں سے ہو رہی تھی اور جو اگر نہ ہوتا تو میں کافی بدحال پردیسیوں کی طرح واپس پہنچتا، لیکن جب یہ ہو گیا تو میں دس منٹ بعد ہی چنگا بھلا خوشحال دیسی ہوا وا تھا۔

اس بورڈنگ پاس کو مہربان خاتون نے پھاڑا، نیا پاس احترام سے میرے حوالے کیا اور وی آئی پی لوگوں والی سیٹوں پہ مجھے بھیج دیا گیا۔

ایاز اور محمود کا فرق ان سیٹوں پہ بیٹھ کے مجھے طلسماتی قسم کے ایک سیکنڈ میں سمجھ آ گیا۔ تب یہ راز کھلا کہ دنیا والے دوگنے سے بھی زیادہ پیسے بھر کے بزنس یا فرسٹ کلاس وغیرہ کی سیٹیں کیوں لیتے ہیں اور یہ ساری کہانی کیا ہے۔

بچپن سارا جہازوں کے ساتھ گزرا کیونکہ ابو پی آئی اے میں تھے، تو کبھی کسی ہوائی سفر میں نئی چیز کوئی محسوس نہیں ہوئی۔ باہر ملک بھی جتنی بار گیا، شکر ہے، روٹین والا معاملہ تھا، ہموار تھا۔ یہ جو تھی نا لیکن فرسٹ کلاس، یہ ایک الگ تجربہ ہے، تو بس پڑھتے جائیے۔

اب میں جن سیٹوں پہ تھا لاؤنج کے اندر، وہ خاص تھیں، ایک ریشمی سی بیلٹ کے پار عوام تھے۔ وہ ادھر دیکھتے تھے اور متاثر ہوتے تھے، میں بیٹھا ادھر شرمندہ ہی سا ہوتا تھا کہ یار یہ کیا اوچھا پن ہے۔ اسی وقت لیکن یہ بات سمجھ آ گئی تھی کہ وہ جو کلاس والا نشہ ہوتا ہے، وہ چیز کیا ہے اور وہ ہوتا کیوں ہے۔

جہاز میں جانے کی باری آئی تو بھی پہلے ہم لوگوں کو بصد احترام بھیجا گیا، ’عوام‘ بعد میں آئے اور جب ہماری سیٹوں سے گزرے تو ایک مرتبہ پھر مجھے ندامت سی محسوس ہوئی لیکن وہ پری ویلجڈ پن بھی سمجھ آتا گیا۔

تو میں جو سیٹ پہ بیٹھا ہوں اور دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو استاد یہ جہان دیگر تھا۔ وہ والا معاملہ ہی نہیں تھا جو پیچھے اکانومی کلاس والا ہوتا ہے۔

رات بھر کا جاگا ہوا تھا تو میں نے سیٹ پیچھے کی اور وہ بس پیچھے ہوتی ہی چلی گئی۔ مسافر ابھی آ رہے تھے تو لاش بننے میں شرم سی آئی اور تھوڑی سی ریکلائن کر کے میں بیٹھنے جیسا کچھ لیٹ سا گیا۔

پھر جو سروس شروع ہوئی ہے تو بس بھائی پگھل ہی گیا۔ پہلے فضائی میزبان نے چار پانچ ویلکم ڈرنکس پوچھے، ایک منگا لیا گیا۔ اسے جہاز کے صوفے (سیٹ لکھنا ظلم ہی ہے) پہ سائیڈ میں رکھا اور سامنے سکرین پہ کام کی فلم ڈھونڈنے لگا۔ اب وہ سکرین بھی اکانومی والی سے ڈیڑھ گنا چوڑی تھی۔ ہر جگہ فرق، اتنا ڈھیر سارا فرق!

ٹیک آف کے پندرہ منٹ بعد صوفے کی سائیڈ سے ایک میز نکالی گئی، اسے احترام سے مسافر کی گود پر سیٹ کیا گیا اور ایک براق سفید کپڑا اس پہ بطور میز پوش بچھایا گیا۔ اب پھر مینیو سامنے تھا اور پانچ میں سے ایک ناشتہ انتخاب کرنا تھا۔

وہ سب دھندے سے فارغ ہو کے گرم گیلے خوشبودار تولیے لائے گئے کہ فرسٹ کلاسیے بے بی اپنا منہ ہاتھ صاف کر لیں۔ تب مجھے ثاقب یاد آیا کہ ایک مرتبہ وہ پریشان تھا کہ آگے سفر ہے اور لمبا ہے اور سیٹ اپ گریڈ نہیں ہو رہی۔ وہ چاہتا تھا کہ بزنس کلاس ہو جائے اور میں حیرت سے سوچتا تھا کہ یار، کٹ ہی جاتا ہے سفر شفر، کیا اتنے پیسے بھرنے کیوں بھلا اتنی سی دیر کے لیے۔

کچھ سوالوں کے جواب بہرحال ایسے ہی ملتے ہیں جب کوئی یاد آ جاتا ہے۔ تو بس ثاقب تنویر جان کو یاد کرتے ہوئے بے بی نے منہ ہاتھ پونچھے اور نیم گرم تولیہ لوٹا دیا۔

ناشتے کی تفصیلات چھوڑیں، کھانے کا تذکرہ سوائے کسی پیارے بندے کے منہ میں پانی لانے کے، کیا کر سکتا ہے؟

تو بھرپور ناشتے کے بعد ہاتھ وغیرہ دھونے کے لیے گیا، اب وہاں بھی اندر دو بوتلیں پرفیوم کی کھلی پڑی ہوئیں، چار قسم کے لوشن، تین طرح کے ٹشو ۔۔۔ یا خدا؟؟؟ ادھر تیرے سادے بندوں کے لیے میلے والے سینیٹائزر بھی فریم میں جکڑ بند ہوتے ہیں اور یہاں اتنا مال ۔۔۔ اکھا کھلا ۔۔۔ پتہ ہے کہ جنہوں نے یہ والے ٹکٹ لیے ہیں وہ جیب میں نہیں ڈالیں گے؟ جو اکانومی والے ہیں وہ بھی تو سستے لوگ نئیں ہوتے یار، کوئی جیب میں ڈال بھی لے گا تو نیا رکھنے میں کیا مسئلہ ہے؟ خیر سبیل خدا کے نام کی ہوتی ہے اور پانی والا گلاس زنجیر میں جکڑا ہوا ۔۔۔ لوگ اُدھر اعتبار نہیں کرتے، یہ تو پھر کارپوریٹ دنیا ہے!

ہیڈ فون لگائے تو بھئی ایک دم بَڑھیا قسم کے، ٹانگوں پہ ڈالنے والا کمبل اٹھایا تو وہ بھی ڈھنگ کا باقاعدہ ۔۔۔ جیسا گھر میں کمبل ہوتا ہے، اس قسم کا، وہ جو چادر نما چیز اکانومی سفر میں دی تھی اس سے کئی گرام وزنی۔

اب سیٹ پیچھے کی اور جو آنکھیں بند ہوئی ہیں تو سوا گھنٹے بعد خاتون نے ہی جگایا کہ لینڈنگ ہونے والی ہے، پشت سیدھی کر لیں۔ مجھے افسوس ہوا۔ میں دو گھڑی کی یہ جنت انجوائے کرنا چاہتا تھا لیکن جگار پوری رات سے تھی تو بس پیٹ بھرتے ہی اکانومی کلاس کی طرح آنکھیں بند ہو گئیں۔

ائیرپورٹ پر سامان لیا اور باہر نکلا تو ٹیکسی والوں کی ایک لمبی لائن تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہوائی اڈے سے گھر کا راستہ ہر کوئی تین ہزار میں طے کروا رہا تھا۔ ایک بھلا مانس آگے آیا، رازداری سے بولا کہ دو ہزار میں لے جاؤں گا بس گاڑی چھوٹی ہے۔

فقیر نے سوچا کتنی چھوٹی ہو سکتی ہے، ہو لیا ساتھ۔ پہنچ کر پتہ چلا کہ گاڑی 1984 ماڈل ایف ایکس تھی اور ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ ہر جگہ سے ویلڈ اور نوے کے زاویے پر استقامت سے قائم تھی، باقی سب سامان بھی بس جہاں ہے، جتنا ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پہ قائم تھا۔

دوبارہ اوقات میں آنے پر مالک کا شکر ادا کیا، اکڑوں بیٹھ کے ڈرائیور سے یہ ضرور شکوہ کیا کہ استاد تین ہزار میں نئی کرولا چھڑوا کے تم دو ہزار میں کر کیا رہے ہو وضع دار مسافر کے ساتھ، پہلے بتانا چاہیے تھا تمہیں کہ گاڑی چھوٹی نئیں ہے کافی پرانی اور چلنے سے اوازار بھی ہے۔ اس نے خبر نئیں کیا کہا لیکن اندر سے آواز آئی کہ ’تجھے فرسٹ کلاس سفر بھی تو انجوائے کرا دیا نا؟ اب جس کی دیہاڑی بن رہی ہے اس سے مت الجھ، آدھے گھنٹے کی بات ہے، کم ظرف نہ بن۔‘

بس پھر جتنا چھلکا تھا اسے ڈیولز شئیر سمجھ کے باقی پیمانہ سمیٹا اور انتہائی شکرگزاری والی کیفیت کے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنے تک نوے کا زاویہ نبھائے رکھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ