گذشتہ برس اپریل میں کینتھ روتھ کے اعلان کے بعد کہ وہ ہیومن رائٹس واچ کے سربراہ کے عہدے سے دستبردار ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان سے ہارورڈ کینیڈی سکول میں کار سینٹر فار ہیومن رائٹس پالیسی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سشما رامن نے رابطہ کیا۔
رامن نے روتھ سے پوچھا کہ کیا وہ ایک سینیئر فیلو کے طور پر سینٹر میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ایک فطری پیش رفت لگ رہی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر روتھ کے تقریباً 30 سالوں میں ان کا بجٹ سات ملین سے بڑھ کر تقریباً 100 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور اس کا عملہ 60 سے 550 افراد تک چلا گیا تھا، جو سو سے زیادہ ممالک کی نگرانی کر رہے تھے۔
نیویارک ٹائمز نے انہیں اپنے کیریئر کے ایک طویل اور تعریفی جائزے میں انسانی حقوق کے ’گاڈ فادر‘ کے طور پر پکارا۔ یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ روتھ ’آمرانہ حکومتوں کے لیے ایک مشکل رہے ہیں‘، جنہوں نے دستاویزی تحقیقی رپورٹس کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا ہے جو گروپ کی خاصیت بن چکی ہیں۔
ہیومن رائنس واچ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس نے لائبیریا کے چارلس ٹیلر، پیرو کے البرٹو فوجی موری اور (سابق یوگوسلاویہ کے ٹربیونل میں) بوسنیائی سرب رہنماؤں راڈووان کاراڈوچ اور راتکو ملاڈک کی سزاؤں کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
روتھ کار (Carr) سینٹر کے ساتھ 1999 میں اس کے قیام کے بعد سے شامل تھے۔ 2004 میں انہوں نے 300 لوگوں کے سامنے اس وقت کے ڈائریکٹر مائیکل اگنیٹیف کے ساتھ اس بحث میں کہ آیا عراق پر امریکی حملہ انسانی ہمدردی کی مداخلت کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے یا نہیں، حصہ لیا۔ مائیکل کے خیال میں یہ ایسا ہی تھا، تاہم روتھ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس بحث کی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک سامنتھا پاور نے میزبانی کی۔
امریکی ہفتہ وار میگزین ’دی نیشن‘ میں ایک مضمون کے مطابق کار سینٹر کے فیکلٹی ڈائریکٹر رامن اور میتھیاس ریس کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں روتھ نے کہا کہ وہ فیلو بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے ہیومن رائٹس واچ میں اپنے تجربے کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا اور یہ کہ لوگوں کا ایک نسبتاً چھوٹا گروپ حکومتوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے اور وہ سینٹر کی تحقیقی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سات مئی کو رامن نے انہیں ایک رسمی تجویز بھیجی اور نو جون کو روتھ نے اصولی طور پر مرکز میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔ رامن نے یہ تجویز دفتر کے ڈین ڈگلس ایلمینڈورف کو منظوری کے لیے بھیجی، جسے ایک رسمی روایت سمجھا جاتا تھا۔
12 جولائی کو روتھ نے ایلمینڈورف (کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کے سابق سینیئر ماہر اقتصادیات اور کانگریس کے بجٹ آفس کے ڈائریکٹر) کے ساتھ ایک ویڈیو گفتگو کی تاکہ وہ اپنا تعارف کروائیں اور ان کے کسی بھی سوال کا جواب دیں۔
تاہم دو ہفتے بعد ایلمینڈورف نے کار سینٹر کو مطلع کیا کہ روتھ کی فیلوشپ کو منظور نہیں کیا جائے گا۔
سینٹر حیران رہ گیا۔ کینیڈی سکول میں انسانی حقوق کی پالیسی کی ریان فیملی پروفیسر کیتھرین سکنک کہتی ہیں، ’ہم نے سوچا کہ وہ ایک بے مثال ساتھی ہوں گے۔‘ اس شعبے میں ایک سرکردہ ماہر تعلیم، کیتھرین کار سینٹر سے نو سال سے وابستہ ہیں اور اس دوران ایسا کبھی کچھ نہیں ہوا تھا۔
کیتھرین ڈین کی وضاحت سے اور بھی حیران ہوئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ہیومن رائٹس واچ ’اسرائیل مخالف تعصب‘ رکھتا ہے۔ اسرائیل پر روتھ کی ٹویٹس خاصی تشویش کا باعث تھیں۔ کیتھرین ہکا بکا رہ گئیں۔
اپنے تحقیقی کام میں انہوں نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں کو ’ہر وقت‘ استعمال کیا تھا۔ یہ تنظیم واقعی اسرائیل پر تنقید کرتی رہی ہے لیکن وہ چین، یہاں تک کہ امریکہ پر بھی تنقید کرتی رہی ہے۔
کیتھرین نے اس نکتے کو ایک تفصیلی ای میل میں شامل کیا، جو انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزام کو مسترد کرنے کے لیے ڈین کے لیے تیار کی تھی۔ انہوں نے پولیٹیکل ٹیرر سکیل کی طرف متوجہ کیا، ریاستی جبر کا ایک سالانہ پیمانہ جو ایشویل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کی ایک ٹیم نے مرتب کیا ہے۔
یہ سیاسی قیدی، مختصر سزائے موت، اذیت اور اسی طرح کے واقعات کی بنیاد پر کم از کم سے لے کر سب سے زیادہ جابرانہ کے ایک سے پانچ کے پیمانے پر ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
یہ ٹیم امریکی محکمہ خارجہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہر ملک کے ریکارڈ کو کوڈ کرتی ہے۔ ہر سال اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں نے تین یا چار سکور کیے جس کی وجہ سے اسے انگولا، کولمبیا، ترکی اور زمبابوے کے ساتھ ایک کلاس میں ڈال دیا۔
کیتھرین اسے ایک ’بہت برا ریکارڈ،‘ کہتی ہیں۔ انہوں نے ہیومن رائٹس واچ کے جائزے کا ایمنسٹی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دونوں سے مزید موازنہ کیا اور تینوں میں ’کافی مماثلت‘ پائی۔ مختصراً، کیتھرین کہتی ہیں کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’ہیومن رائٹس واچ کا اسرائیل کے خلاف بالکل بھی تعصب نہیں ہے‘ اور یہ نتیجہ اخذ کرنا ’غلط‘ ہے۔ انہوں نے اپنے نتائج ایلمینڈورف کو بھیجے، ڈین نے جواب دیا کہ انہوں نے ای میل پڑھ لی ہے لیکن وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کریں گے۔
اس فیصلے کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیے کیتھرین نے مجھے پیٹر بینارٹ کے ایک مضمون کا حوالہ دیا، جو 26 اگست کو نیویارک ٹائمز میں عنوان ’کیا یہود دشمنی کے خلاف جدوجہد اپنا راستہ کھو چکی ہے؟‘ کے نام سے شائع ہوا۔ پیٹر نے لکھا کہ گذشتہ 18 ماہ کے دوران امریکہ کی سب سے نمایاں یہودی تنظیموں نے کچھ غیر معمولی کام کیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی دنیا کی سرکردہ تنظیموں پر یہودیوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔
پیٹر نے نوٹ کیا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپریل 2021 میں ایک رپورٹ جاری کرنے کے بعد اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا الزام لگایا۔ امریکی یہودی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ اس کے الزامات ’بعض اوقات یہود دشمنی سے جڑے ہوئے ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فروری 2022 میں اپنی رپورٹ جاری کی، جس میں اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا گیا۔ اس پر اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نے پیش گوئی کی کہ اس سے ’ممکنہ طور پر یہود دشمنی میں شدت آئے گی۔‘
اس کے علاوہ اے جے سی اور اے ڈی ایل نے چار دیگر ممتاز یہودی گروپوں کے ساتھ مل کر ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایمنسٹی کی رپورٹ نہ صرف متعصب اور غلط تھی بلکہ ’دنیا بھر میں ان یہود مخالفین کو شہہ دیتی ہے جو زمین پر موجود واحد یہودی ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔‘
پیٹر نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک ’خوفناک ستم ظریفی تھی کہ یہود دشمنی‘ کے خلاف مہم کو یہ گروہ ’دنیا کی سب سے معزز انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف ایک ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
یہ الزام کہ ہیومن رائٹس واچ اسرائیل مخالف ہے شاید کوئی نئی بات ہو۔ 2009 میں رینڈم ہاؤس کے سابق سربراہ رابرٹ برنسٹین نے ہیومن ہیومن رائٹس واچ کی بنیاد رکھی تھی اور 1978 سے 1998 تک اس کے چیئر کے طور پر خدمات انجام دیں، ٹائمز کی رائے میں اس پر کڑی تنقید کی۔
انہوں نے لکھا کہ ہیومن رائٹس واچ کا اصل مشن ’بند معاشروں کو کھولنا، بنیادی آزادیوں کی وکالت کرنا اور اختلاف رائے رکھنے والوں کی حمایت کرنا‘ تھا لیکن اس کی بجائے یہ ’اسرائیل عرب تنازع پر رپورٹیں جاری کر رہی ہیں جو ان لوگوں کی مدد کر رہی ہیں جو اسرائیل کو ایک پاریہ ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘ مشرق وسطیٰ میں ہیومن رائٹس واچ نے ’خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل کی زیادہ مذمت کی ہے۔‘
برنسٹین کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، ہیومن رائٹس واچ نے مشاہدہ کیا کہ 2000 سے اس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بارے میں 1,700 سے زیادہ رپورٹیں اور دیگر تبصرے تیار کیے ہیں، جن میں سے اکثریت اسرائیل کے علاوہ دیگر ممالک کے بارے میں تھیں۔
اسرائیل مخالف مہم کے تاثر کو روتھ مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ جو اسرائیل کے بارے میں جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ این جی او مانیٹر ’ایک انتہائی متعصب ذریعہ ہے‘ جس نے ’اسرائیل کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر کبھی بھی تنقید درست نہیں پائی۔‘
روتھ کا خیال ہے کہ سٹین برگ ’خاص طور پر ناراض تھا کہ میں نے اسرائیل پر تنقید کرنے کی جرات کی، حالانکہ میں یہودی ہوں اور میرے والد کے نازی جرمنی میں رہنے کے تجربے کی وجہ سے انسانی حقوق کی طرف راغب ہوا تھا۔‘ ان کے والد 1938 میں نیویارک فرار ہو گئے جب وہ 12 سال کے تھے اور روتھ بہت سی ’ہٹلر کی کہانیاں‘ سن کر بڑے ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کے خلاف اپنے بار بار چلنے والے وسیع بیانات میں سٹین برگ نے تقریباً کبھی بھی فلسطینی حکام کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں اور جرائم کے بارے میں تنظیم کی متواتر رپورٹس اور بیانات کا ذکر نہیں کیا۔ مثال کے طور پر ’دو اتھارٹیز، ایک وے، زیرو ڈسنٹ‘ کے عنوان سے 2018 کی ایک رپورٹ میں، ہیومن رائٹس واچ نے زور دے کر کہا کہ ’25 سالوں میں جب سے فلسطینیوں نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر خود مختاری حاصل کی ہے، ان کے حکام نے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے جبر، بشمول تشدد کے استعمال کے ذریعے مشینری قائم کی ہے۔‘
دو سالہ تحقیقات کی بنیاد پر رپورٹ جس میں 147 سابق زیر حراست افراد اور خاندان کے افراد اور ان کے وکلا کے انٹرویوز شامل تھے، ظاہر کرتی ہہ کہ ’فلسطینی حکام معمول کے مطابق ایسے لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں جن کی پرامن تقریر انہیں ناگوار گزرتی ہے اور اپنی حراست میں رکھنے والوں پر تشدد کرتے ہیں۔‘ اس رپورٹ کے مصنف عمر شاکر تھے۔
مختصراً، روتھ کے زیر انتظام ہیومن رائٹس واچ نے فلسطینی حکام کو اسی معیار پر پرکھا، جو اس نے اسرائیل اور بہت سی دوسری حکومتوں پر لاگو کیا تھا۔ روتھ نے یہ بات 12 جولائی کو ایلمینڈورف کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہی۔ اس کے دوران روتھ نے یاد کیا کہ ڈین نے کہا تھا کہ وہ فیلوشپس کی جانچ شروع کرنے جا رہے ہیں اور روتھ سے پوچھا کہ کیا ان کا کوئی دشمن ہے؟ روتھ نے اسے بتایا کہ ’میں یہی کرتا ہوں۔ میں دشمن بناتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فہرست واقعی لمبی ہے۔ 2014 میں روتھ کو قاہرہ میں داخلے سے منع کر دیا گیا تھا جب وہ ایک رپورٹ جاری کرنے کے لیے پہنچے تھے جس میں مصری حکام کو مظاہرین کے منظم قتل میں ملوث پایا گیا تھا۔ 2020 میں واچ کی سالانہ رپورٹ جاری کرنے کے لیے پہنچنے کے بعد انہیں ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر واپس کر دیا گیا، جس کا مرکزی مضمون روتھ نے لکھا تھا اور چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کی تھی اور یوکرین پر روس کے حملے کے بعد روس کی طرف سے منظور شدہ لوگوں کی فہرست میں انہیں رکھا گیا۔
روتھ ایلمینڈورف کے ساتھ اپنے تبادلہ خیال کے بارے میں کہتے ہیں، ’لیکن میں جانتا تھا کہ وہ کس طرف جا رہے تھے۔ یہ ہمیشہ اسرائیل ہے۔‘
تبصرے کی درخواست کے جواب میں، کینیڈی سکول کے ترجمان، جیمز ایف سمتھ نے لکھا، ’ہمارے پاس فیلوشپ اور دیگر تقرریوں پر غور کرنے کے لیے داخلی طریقہ کار موجود ہے اور ہم ان افراد کے بارے میں بات نہیں کرتے جو زیر غور ہو سکتے ہیں۔‘ آج تک ایلمینڈورف نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ سکول میں روتھ کی موجودگی پر کس نے اعتراض کیا ہے۔
کینیڈی سکول حکومت اور عوامی پالیسی کے دنیا کے سب سے بڑے سکولوں میں سے ایک ہے۔ یہ پبلک پالیسی اور ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ اور ماسٹر ڈگریوں سے لے کر ایک ہفتے کے ایگزیکٹو ٹریننگ سیشن تک سب کچھ پیش کرتا ہے جس کی لاگت 10250 ڈالرز ہے اور شرکا کو ہارورڈ کو اپنے ریزیومے پر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ کوئی واحد مربوط ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک مجموعہ ہے جو تنازعات کے حل، جوہری پھیلاؤ اور موسمیاتی تبدیلی سے لے کر شہری پالیسی، مالیاتی ضابطے اور ووٹروں کو متحرک کرنے تک ہر چیز کو دیکھتا ہے۔
ہارورڈ کی طرف سے ویٹو کیے جانے کے بعد، روتھ نے یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں وزٹنگ فیلوشپ کو قبول کر لیا۔ روتھ نے مزید کہا: ’آپ کے پاس یہ انسانی حقوق کا مرکز ہے۔ مجھ سے بہتر کوالیفائڈ کون ہے؟‘
یہ تحریر امریکی جریدے دی نیشن میں شائع ہوئی، جس کی تلخیص یہاں پیش کی جا رہی ہے۔