آج تک میں جس بھی ایسی شخصیت سے ملا جس کا رحجان کسی حد تک بھی مذہب سے ہے تو ان کی اولین ترجیحات میں حج اور عمرہ کی ادائیگی شامل تھی اور اس کی غمازی اس بات سے ہوتی ہے کہ پاکستانیوں کا شمار ان ممالک کے شہریوں میں ہوتا ہے جو مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے والوں کی فہرست میں نمایاں رہے ہیں۔
لیکن 2020 کے اوائل میں جب کرونا وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو زندگی ٹھہر سی گئی، تقریباً تمام ہی ممالک نے بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی سرحدیں باہر سے آنے والوں کے لیے بند کر دیں۔
مشکل اور بیماری میں جب خدا کی یاد بہت آتی ہے، اس صدی کے مہلک ’کرونا‘ وائرس نے ایسا خوف پھیلایا کہ انسان، انسان کی قربت سے ڈرنے لگا اور ماہرین صحت نے بھی یہ ہی نصیت کی کہ اگر بیماری سے بچنا ہے تو فاصلہ اختیار کرو۔
عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانے والی احتیاطی تدابیر ہی کہ وجہ سے سعودی حکومت نے حج اور عمرہ کی ادائیگی محدود کر دی تھی اور 2020 میں جب کرونا وائرس کا بہت زور تھا سعودی عرب سے صرف 1000 مقامی شہریوں کو تمام تر ضروری احتیاط کے ساتھ حج کی اجازت تھی۔
بعد ازاں جب وائرس کا پھیلاؤ کم ہوا اور بچاؤ کی ویکسینشن بھی دستیاب ہونا شروع ہوئی تو بتدریج بیرون ملک سے حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے آنے والے خواہش مند افراد کی تعداد بڑھائی جاتی رہی۔
گزشتہ سال 81 ہزار سے زائد پاکستانی سعودی عرب کی طرف سے دیے گئے حج کوٹہ سے مستفید ہوئے۔
رواں ہفتے پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے جدہ میں چار روزہ عالمی حج کانفرنس میں شرکت کی اور ان کی وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’سعودی حکام کی جانب سے وزیر مذہبی امور کو سالانہ حج معاہدے کا مسودہ موصول ہو گیا ہے جس کے تحت پاکستانی حجاج کا پرانا کوٹہ 179٫210 بحال کر دیا گیا ہے اور 65 سال کی بالائی حد کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ کابینہ کی منظوری کے بعد رواں سال کے لیے حتمی حج پالیسی کا اعلان کیا جائے گا اور توقع ہے کہ آئندہ مہینے سے حج درخواستوں کی وصولی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
بیان کے مطابق وزیر مذہبی امور نے سعودی حکام سے درخواست کی ہے کہ ’لازمی حج اخراجات کو مزید کم کیا جائے تاکہ حج کے خواہش مند پاکستانی عازمین پر کم سے کم بوجھ پڑے جس پر سعودی وزیر حج و عمرہ نے مثبت کوشش کی یقین دہانی کروائی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر سعودی عرب کے حج و عمرہ کے وزیر ڈاکٹر توفیق بن فوزان الربیعہ نے عمرہ کرنے والوں کے لیے بیمہ کی لاگت کو 63 فیصد جب کہ حج کے لیے بیمہ کی لاگت میں 73 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔
حج کی ادائیگی اسلام کے بنیادی اراکین میں سے ایک ہے اور زندگی میں ایک بار حج کی ادائیگی ایسے افراد پر فرض ہے جو مالی اور جسمانی طور پر اسے مذہبی فریضے کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مالی مشکلات کے باوجود پاکستانیوں کی طرف سے حج اور عمرہ کی ادائیگی کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے دے جانے والے کوٹہ بھی بڑھایا جاتا رہا ہے۔
جب کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھی ان رضا کاروں میں شامل ہوتے ہیں جو حج کے دوران دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
پاکستانی وزیر کا تازہ بیان یقینا ان افراد کے لیے اس سال کی ایک بڑی خوشخبری ہے جو مسلمانوں کے لیے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے سفر کی خواہش رکھتے ہیں۔