پاکستان اور روس کے درمیان خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی خریداری کے معاملے پر بات چیت کے لیے روسی وزیر توانائی کی سربراہی میں ایک 80 رکنی اعلیٰ سطحی وفد آج پاکستان پہنچے گا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ملاقات میں فوری طور پر 30 فیصد رعایت پر خام تیل اور دیگر توانائی مصنوعات کی درآمد پر بات ہو گی اور مجموعی طور پر تین ارب ڈالر کے معاہدوں کا امکان ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے گذشتہ برس پانچ دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 'روس پاکستان کو خام تیل کم قیمت دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ روس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو کم نرخ پر خام تیل دے گا۔
اس وقت انہوں نے روسی وفد کی جنوری میں پاکستان آمد کا اعلان کیا تھا۔ پاکستانی وزارت پیٹرولیم کی سربراہی میں ایک وفد نے سستے تیل کی خریداری کے لیے 28 نومبر کو ماسکو کا دورہ کیا تھا۔
وزیر مملکت مصدق ملک نے سات جنوری کو ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس سے رعایتی تیل کی خریداری کے معاہدے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اس وقت انہوں نے مزید کہا تھا کہ روسی وفود اس وقت آئیں گے جب تیاریاں مکمل ہوں گی۔
مذاکرات میں تیل اور ایل این جی کی خریداری کے معاملے پر بات چیت سرفہرست ہوگی۔ پیٹرولیم ڈویژن کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تین روزہ مذاکرات کے دوران پاک روس انٹرگورنمنٹل کمیشن کا اجلاس ہوگا۔ انٹرگورنمنٹل اجلاس میں پاکستانی وفد کی سربراہی ایاز صادق کریں گے۔ روسی وفد کی سربراہی اس کے وزیر توانائی نیکولے شولگینوف کریں گے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے کہا کہ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی بات چیت کی جائے گی اور حکومتوں کے درمیان خریداری کے لیے انٹر گورنمنٹل معاہدہ ضروری ہے۔
ماہرین کے خیال میں پاکستان اور روس خام تیل اور دیگر توانائی مصنوعات کی درآمد کے لیے کی گئی بات چیت بالآخر کسی معاہدے کی طرف بڑھنے لگی ہے۔ تاہم روسی خام تیل کے حوالے سے سوالات بھی پیدا ہوئے تھے کہ پاکستان کے پاس خام تیل کو قابل استعمال لانے کی استعداد کار ہے یا نہیں۔
اس حوالے سے پاکستانی ریفائنریریز نے روسی خام تیل سے پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار ممکن قرار دے دی ہے۔ حکومت نے گذشتہ برس جون میں اس معاملے پر آئل ریفائنریز کو خطوط لکھ کر ان سے تجاویز طلب کی تھیں کہ کس گریڈ کا کتنا روسی خام تیل صاف کیا جاسکتا ہے؟
ریفائنگ کے بارے میں مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تیل کی ریفائنریوں سے ملاقات کے بعد روس سے بات کی۔ معاہدے کی تیاری مکمل ہے لیکن ہم وقت سے پہلے بات نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ’ہمارے ملک کے مفاد میں ہے کہ ہم ریفائنریوں کی جدت اور اپ گریڈنگ میں رقم کی سرمایہ کاری کریں کیونکہ ہماری ریفائنریز زیادہ فرنس آئل پیدا کرتی ہیں جس کی کہیں کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔‘
روس سے تیل کی خریداری پر امریکہ کو اعتراض ہوسکتا ہے جس نے روس پر یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ تاہم وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ اکتوبر میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران انہوں نے امریکی حکام سے ملاقات میں روس سے تیل کی خریداری کا معاملہ اٹھایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت انہوں نے امریکی حکام کو بتایا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کو روس سے اشیا خریدنے سے نہیں روک سکتا کیونکہ پڑوسی ملک بھارت بھی ایسا ہی کرتا رہا ہے۔
وزارت پیٹرولیم حکام کے مطابق پاکستان روس سے 40 سے 50 ڈالر فی بیرل تیل کی فراہمی پر بات چیت کرے گا۔ بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس کے دوران ادائیگیوں اور شپنگ کا طریقہ کار بھی طے کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طویل المدتی ایل این جی معاہدے نارتھ ساوتھ گیس منصوبے پربھی پیش رفت کا امکان ہے۔ پاکستان ماہانہ دو لاکھ ٹن ڈیزل درآمد کرتا ہے اور روس سے دو لاکھ ٹن ماہانہ سستے ڈیزل کی خریداری پر بھی بات ہو گی۔ پاکستان اپنی ضرورت کا 50 فیصد پٹرول بھی روس سے منگوانے کے معاہدے پر بات کرے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ روس سے معاہدے کے بعد درآمدی بل میں 50 فیصد کمی ہوگی۔
ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر پاکستان رعایتی نرخوں پر روس سے تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے معاشی بحران سے دوچار ملک سالانہ بنیادوں پر دو ارب ڈالر کی بچت کر سکے گا۔
توانائی کے علاوہ دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں تجارت اور سرمایہ کاری، زراعت، کسٹمز، صنعت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، مواصلات (سڑکوں اور ڈاک کی خدمات)، ریلوے اور فنانس سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گی۔
روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے خبررساں ادارے تاس کو انٹرویو دیتے ہوئے دسمبر میں کہا تھا کہ روس طویل مدت میں اپنی قدرتی گیس افغانستان اور پاکستان کی منڈیوں میں برآمد کر سکتا ہے۔
’اگر ہم نقطہ نظر کے بارے میں بات کریں تو، اس میں افغانستان، پاکستان کو گیس کی برآمدات شامل ہیں - یا تو وسطی ایشیا کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو استعمال کرتے ہوئے، یا ایران کی سرزمین سے تبادلہ کے ذریعے۔‘
روس کے خام تیل کی سستی قیمتوں پر خریداری حالیہ مہینوں میں پاکستان میں ایک گرما گرم موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ایندھن کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ میں نمایاں اضافہ ہے۔ یہ مہنگائی خاص طور پر پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے تکلیف دہ رہی ہے جو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیٹرولیم کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
اسلام آباد اور ماسکو پہلے ہی روسی گندم کی درآمد کے علاوہ تیل اور ایل این جی کے سودوں پر قریبی رابطے میں ہیں۔