صحافیوں اور پریس کے حقوق کے حوالے سے آواز اٹھانی والی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈر (آر ایس ایف) نے پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں اور سینسرشپ کے خلاف وزیراعظم عمران خان کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
سیکریٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلوئر کی جانب سے لکھے گئے آر ایس ایف کے خط میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا، ’حالیہ دورہ امریکہ کے دوران جب آپ سے پریس پر پابندیوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ پاکستانی پریس دنیا کا آزاد ترین پریس ہے اور یہ کہنا کہ پاکستانی پریس پر پابندیاں ہیں، ایک مذاق ہے۔‘
کرسٹوفر ڈیلوئر نے لکھا: ’پاکستانی صحافیوں کے لیے آپ کا یہ دعویٰ ہی ایک ’مذاق‘ ہے، جس میں آپ نے کہا تھا کہ پاکستانی میڈیا، برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے۔‘
مزید کہا گیا: ’اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یا تو آپ کی معلومات انتہائی ناقص ہیں، اس صورت میں آپ کو اپنے اردگرد موجود لوگوں کو فوراً تبدیل کرلینا چاہیے، یا پھر آپ جان بوجھ کر حقائق چھپا رہے ہیں، جو کہ ایک انتہائی سنجیدہ بات ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کرسٹوفر ڈیلوئر نے مزید کہا: ’امریکہ میں آپ کے لینڈ کرنے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی پاکستان کے صف اول کے نیوز چینل، جیو ٹی وی کو سینسر کردیا گیا۔ آپ کے دورے کے حوالے سے جب لوگوں نے اس چینل پر آزاد اور مفاد عامہ پر مشتمل رپورٹنگ دیکھنی چاہی تو انہیں سیاہ سکرین نظر آئی۔‘
خط میں کہا گیا: ’ایک ماہ قبل معروف صحافی حامد میر کے پروگرام میں سابق صدر آصف علی زرداری کا لائیو انٹرویو نشر ہونے کے چند منٹ بعد ہی بغیر کسی وضاحت کے، درمیان میں سے روک دیا گیا۔ جب آر ایس ایف نے انٹرویو کرنے والے صحافی سے رابطہ کیا تو انہوں نےاس اچانک سینسر شپ کے پیچھے آپ کا ہاتھ قرار دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آر ایس ایف کے مطابق: ’آٹھ جولائی کو چینل انتظامیہ کو کوئی وارننگ دیے بغیر تین دیگر پاکستانی نیوز چینلز اب تک ٹی وی، 24 نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کو کیبل ٹی وی سے ہٹا دیا گیا، جو کئی دن تک معطل رہے۔ 24 نیوز کے لیے کام کرنے والے معروف صحافی نجم سیٹھی نے آر ایس ایف کو تصدیق کی کہ یہ معطلی اپوزیشن رہنما مریم نواز کی تقریر نشر کرنے کی وجہ سے ہوئی۔‘
اپنے خط میں کرسٹوفر ڈیلوئر نے وزیراعظم عمران خان کو یاد دلایا کہ کس طرح انہوں نے ایک سال قبل عام انتخابات جیتنے کے لیے اپنی مہم میں ’تبدیلی‘ اور ’نیا پاکستان‘ کے نعرے لگائے تھے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ’یہ بات بالکل واضح ہے کہ جیسے ہی پریس سے آزادی چھینی گئی، آپ کا ملک آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس (2019) میں تین درجے نیچے آکر 180 ممالک میں سے 142 ویں نمبر پر آگیا۔ اور حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں ’نئے پاکستان‘ کے لیے کوئی مثبت امید نظر نہیں آتی۔‘
آر ایس ایف نے اپنے خط میں پڈ عیدن پریس کلب کے صدر علی شیر راجپر، صحافی ملک امان اللہ خان اور بلاگر محمد بلال خان کے قتل سمیت ایک آئی ایس ایس آفیسر کے خلاف ٹویٹ کرنے پر صحافی شاہ زیب جیلانی کے ’سائبر دہشت گردی‘ کے شکار ہونے کا بھی ذکر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: زرداری کے انٹرویو پر پابندی:’کیا اسے جمہوری مارشل لا کہیں گے؟‘
مزید کہا گیا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا قائم کردہ روزنامہ ڈان اخبار بھی حکومت کی جانب سے اشتہارات کے فنڈز روکے جانے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہوا۔
وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے کھلے خط میں کہا گیا: ’پریس پر پابندیوں کے ان واقعات کے باوجود بھی آپ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کا پریس دنیا کا آزاد ترین پریس ہے، بے شرمی کی بات ہے۔‘
آخر میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ صحافیوں کو 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ان کے پیشے پر پوری آزادی کے ساتھ عملدرآمد کرنے دے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس خط کے حوالے سے موقف لینے کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی اور وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم دونوں کی طرف سے پیغامات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بعدازاں انڈپینڈنٹ اردو نے جب وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سعید جاوید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ لاہور ایک نجی مصروفیت پر آئے ہیں اور انہیں خط کی موصولی کا علم نہیں۔ انہوں نے وزیراعظم آفس سے معلومات حاصل کرکے جواب دینے کے لیے کہا مگر اس رپورٹ کی تیاری تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔