وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے دو ہزار سے زیادہ لگژری گاڑیوں کی درآمد سے متعلق افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کرنے والی کمپنیوں کے لیے پرزہ جات ضرور درآمد ہوئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے بھی ایسی خبریں پڑھیں تو متعلقہ حکام سے معلومات حاصل کیں، پتہ چلا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ڈالر کی قلت والی صورت حال میں اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں درآمد کی گئیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں غیر ملکی پرزہ جات کو جوڑ کر گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے لیے خام مال اور پرزہ جات ضرور برآمد ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ایل سی نہ کھلنے پر انتہائی اہم اشیا کے بندرگاہ پر پھنسے ہونے کے باوجود استعمال شدہ لگژری گاڑیوں کی درآمدات کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پاکستانی میڈیا میں گذشتہ کئی روز سے ملک میں امریکی ڈالر کی قلت کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران 22 سو لگژری گاڑیوں کی درآمد کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق درآمد کی گئی گاڑیوں میں نئی کاریں، نئی لگژری الیکٹرک گاڑیاں اور تین سال پرانی لگژری الیکٹرک گاڑیاں شامل ہیں۔
مذکورہ اخباری خبروں کو اس وجہ سے اہمیت ملی کہ اس وقت ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباؤ کے باعث اشیائے ضروریہ اور صنعتی خام مال کی درآمدات محدود ہو چکی ہیں اور بندرگاہ پر انتہائی اہم اشیا سے بھرے کنٹینرز پھنسنے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیرون ملک سے پاکستان لائی جانے والی اشیا کو بندرگاہ پر کسٹم سے کلیئر کرانے والے کراچی کے کلیئرنگ ایجنٹ محمد سعد نے بھی اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کی درآمد کو ’ناممکن‘ قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’یہ بہت بڑی تعداد ہے، مئی کے مہینے سے گاڑیوں کی درآمد نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔
’ماضی میں بیرون ملک سے گاڑیاں، خصوصاً لگژری کاریں، ہر مہینے زیادہ سے زیادہ 30 سے 35 ہی آتی تھیں لیکن حالیہ معاشی بحران کے بعد تو ایسی گاڑیاں آنا بند ہو گئی ہیں۔‘
پاکستان میں ڈالر کی شدید قلت کے بعد بینکوں نے درآمدات کے لیے اہم دستاویز ’لیٹر آف کریڈٹ‘ یا ’ایل سی‘ کا اجرا گذشتہ کئی مہینوں سے بند کر رکھا ہے جس کے باعث درآمد کنندگان بیرون ممالک سے نئی مصنوعات نہیں منگوا رہے ہیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے مطابق منگل تک کراچی کی بندرگاہوں پر تقرباً آٹھ ہزار کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں جن میں پہلے سے لیے ہوئے آرڈرز کا سامان موجود ہے۔