افغانستان کے لیے روسی صدر ولادی میر پوتن کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات میں افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیموں کے باہمی تعاون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے 25 جنوری کو بتایا کہ روسی نمائندہ خصوصی نے اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے ساتھ ملاقات میں افغان عبوری حکومت کے ساتھ عملی رابطوں پر زور دیا۔ ایک بیان کے مطابق دونوں نے افغانستان پر پڑوسی ممالک اور ماسکو فارمیٹ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کے لیے عزم کا اظہار کیا۔
ضمیر کابلوف اور حنا ربانی کھر نے علاقائی امن اور استحکام کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
روسی نمائندے نے 24 جنوری کو افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ساتھ وفود کی سطح کے مذاکرات کیے۔ محمد صادق نے منگل کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ملاقات میں ’خطے میں حالیہ واقعات اور ایک اچھے مستقبل کے لیے پاکستان اور روس کے قریبی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
انہوں نے ضمیر کابلوف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک واضح موقف رکھنے والے قابل ذکر اور باخبر سفارت کار ہیں۔ محمد صادق نے ٹویٹ میں ملاقات سے متعلق مزید تفصیلات شریک نہیں کیں۔
تاہم جب ایک پاکستانی اہلکار سے پوچھا گیا کہ مذاکرات میں طالبان حکومت تسلیم کرنے پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہر ملاقات میں بات ہوتی ہے، ’لیکن یہ محسوس کیا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام سے متعلق طالبان کے فیصلے دنیا کے تمام ممالک کی نظر میں طالبان کو تسلیم کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔‘
روسی اور پاکستانی وفود کی ملاقات سے متعلق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ضمیر کابلوف نے افغانستان میں شدت پسند گروپوں کی آپس میں تعاون اور افغان طالبان کی ’داخلی اختلافات‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔
ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغان طالبان کے مابین اختلافات کا موقف روسی نمائندے کا تھا نہ کہ پاکستان کا۔
روسی ایلچی نے افغانستان میں القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، چینی مسلمانوں کی تنظیم ’مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ،‘ ازبکستان اسلامی تحریک اور داعش کی کارروائیوں میں تعاون پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
ایک پاکستانی عہدیدار نے 25 جنوری کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ روس کی توجہ اب مغرب کے بجائے مشرق کی طرف ہے، اور افغانستان کے راستے مرکزی ایشیا کے ساتھ توانائی اور دیگر منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔
اسلام آباد کی ملاقاتوں میں ضمیر کابلوف نے بھی اس کا اعادہ کیا۔ پاکستانی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس افغانستان پر پاکستان اور روس کا موقف ایک ہے جو ایک بڑی تبدیلی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان افغانستان میں غیر ملکی شدت پسند تنظیموں کی موجودگی اور سرگرمیوں کی تردید کرتے رہتے ہیں۔
طالبان نے ابھی تک کابل میں 31 جولائی کو القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے۔
ضمر کابلوف نے 12 اور 13 جنوری کو دورہ افغانستان کے دوران طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دیگر حکام سے ملاقاتوں میں افغانستان پر پڑوسی ممالک اور روس پر مشتمل فورم کے آئندہ ماہ ازبکستان میں کانفرنس پر بھی گفتگو ہوئی۔
یہ فورم اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کنٹرول کے بعد بنایا گیا تھا جس کا پہلا اجلاس پاکستان اور بعد میں ایران میں ہوا تھا۔
افغانستان پر ماسکو فارمیٹ مذاکرات کا آغاز 2018 میں ہوا جس کے ارکان میں علاقائی ممالک شامل ہیں۔
ضمیر کابلوف نے افغانستان کے راستے توانائی اور دیگر منصوبوں میں دلچسپی اس وقت ظاہر کی، جب روس کے توانائی کے وزیر نے حالیہ دورہ اسلام آباد میں پاکستان کو رعایتی نرخ پر تیل اور گیس فراہم کرنے پر مذاکرات کیے۔
پاکستانی حکام کا بھی اصرار ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے، اور وہاں سے پاکستان میں حملوں کی منصوبے بناتی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں کارروائیاں کر سکتا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ’ایکسپریس نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مراکز ختم کرنے اور ان کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ طالبان حکومت نے پاکستانی وزیر داخلہ کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کیا تھا اور ٹی ٹی پی کی کاروائیوں سے متعلق بیان کو مسترد کیا تھا۔