پیپلز پارٹی کے سابق رہنما سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ مستقبل میں ری امیجننگ پاکستان کے پلیٹ فارم کو سیاسی جماعت بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس حوالے سے کافی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، البتہ انہوں نے اگلا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’ہمارا ارادہ صرف سیمینارز کا انعقاد کرنا ہے، ایک کوئٹہ جبکہ دوسرا پشاور میں ہو چکا ہے جبکہ اگلا سیمینار کراچی میں ہو رہا ہے اور اس کے بعد لاہور اور اسلام آباد میں کیے جائیں گے۔‘
’ہمارا سیاسی ماحول مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور سیاست دان ان کا حل نہیں نکال پا رہے جس سے معیشت نظر انداز ہو رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب دوسروں کو گالی اور الزامات دیے جا رہے ہیں، یہ ایک غیر جانبدارانہ کوشش ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاست لوگوں کے مسائل کی طرف آئے اور ان کے مسائل پر بات کی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ گذشتہ آٹھ سے 10 سالوں میں ملکی سیاست محض پاناما، توشہ خانہ اور سائفر کی نذر ہوئی اور ملکی مسائل کونظر انداز کیا گیا۔
آئندہ کے سیاسی لائحۂ عمل کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ آئندہ الیکشن بطور آزاد امیدوار لڑوں۔ ’تمام سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا کیوں کہ سب ایک زلف کے اسیر ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔‘
’گذشتہ 75 سالوں میں ہم طے نہیں کر سکے کہ ملک کس نے چلانا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حامی سیاست، کہیں سے احسانات یا مدد مل جائے، الیکشن سے پہلے اتحاد بن جائے، اس سیاست نے پاکستان کو ڈیلیور نہیں کیا اور نہ آگے کرے گی۔ سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی شمولیت ہماری بدقسمتی ہے۔ ملک کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو اس کے آئینی کردار تک محدود کرنا ہو گا۔‘
حکومت خوف کا شکار ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو عمران خان کو بھاری اکثریت ملے گی۔ وفاقی حکومت نے امیدوار نہ ملنے پر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے دوڑ لگا دی۔
مستقبل میں پی پی پی کی جانب سے جماعت دوبارہ شمولیت اختیار کرنے کی پیشکش ملنے پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایسی کوئی دعوت ہو گی اور نہ وہ ایسی خواہش رکھتے ہیں۔
’ری امیجننگ‘ پاکستان کے پلیٹ فارم کو پریشر گروپ کہے جانے سے متعلق سوال پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ پریشر پڑنا اچھی بات ہے تاکہ سیاست لوگوں کے مسائل کی جانب واپس آئے اور ہم یہی چاہتے ہیں۔ موجودہ معاشی صورت حال کے پیش نظر اقتصادی اصلاحات پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔
پلیٹ فارم کے سیاسی منظر نامہ پر ہلچل پیدا کرنے میں کامیاب ہونے سے متعلق سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’اگر ہلچل نہ ہوتی تو کیا اتنی قیاس آرائیاں کی جاتیں؟ میرا انٹرویو ہو رہا ہوتا؟‘
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے منسلک رہنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے موروثی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی کے پاس بھی سیاسی نقطۂ نظر اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے صلاحیت ہے تو اسے لوگ قبول کریں گے۔‘
’64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل اس ملک میں صرف موروثی سیاست کی بنیاد پر کسی کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اس فرد میں جذبہ اور وژن نظر آنا چاہیے، تب ہی شاید انہیں قبول کیا جائے گا ورنہ وقت بدل رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’فرحت اللہ بابر جیسے رہنما اب بھی پی پی پی میں موجود ہیں جو تنقید کرتے ہیں، کیا ایسی وجہ ہے کہ وہ اب بھی اسی جماعتمیں موجود ہیں اور آپ نہیں ہیں؟‘
اس پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا جواب سیاسی جماعت ہی دے سکتی ہے کہ کیا وجہ ہوئی جو ان سے استعفیٰ مانگا گیا۔
حالیہ دنوں میں پی پی پی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کے جماعت سے سائڈ لائن ہونے اور ری امیجننگ پاکستان کے پلیٹ فارم پر دعوت دینے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہ ’اعتزاز احسن ملک اور پنجاب کی سیاست کا بڑا نام ہیں۔ ماضی میں ان سے اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا لیکن میں ضرور ان کے پاس جا کر انہیں اس پلیٹ فارم کے لیے دعوت دوں گا۔‘
آئندہ الیکشن سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’انتخابات میں کسی صورت تاخیر نہیں ہونے چاہییں۔ آئین کے مطابق اگر کوئی اسمبلی ٹوٹ جائے تو 90 روز میں الیکشن ہونے چاہییں۔ اگر آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کی جائے گی تو پارلیمان اور آئین کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن وقت پر ہونے چاہییں۔‘
انہوں نے مزید کہا الیکشن میں تاخیر کرنے کی سوچ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں موجود ہے، وزرا نے اس حوالے سے انتخابات ملتوی ہونے کے کھل کر اشارے دیے ہیں۔ وزیر قانون کا ’آئین سے دستبردار ہونے‘ سے متعلق بیان ان کے لیے حیرت کی بات تھی۔
’الیکشن وقت پر ہونے چاہییں۔ اگر سیاست دان آئین کو کھیل بنائیں گے، تو اس ملک میں تاریخ ہے کہ باقی قوتیں بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیں گی۔‘
مصطفیٰ کھوکھر نے کہا، ’حکومت خوف کا شکار ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو عمران خان کو بھاری اکثریت ملے گی۔ وفاقی حکومت نے امیدوار نہ ملنے پر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے دوڑ لگا دی۔ اگر آپ نے حکومت لی ہے اور مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔‘
’بہادروں کی طرح مقابلہ کریں اور عوام پر چھوڑیں وہ آپ کو ووٹ دیتے ہیں یا نہیں۔‘
حالیہ دنوں میں پی پی پی سے منسلک سینیٹر رضا ربانی اور مسلم لیگ ن سے مشاہد حسین سید نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان سیاست دانوں کے ری امیجننگ پلاٹ فارم میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے عدم اطمینان تیزی سے پھیل رہا ہے جس میں پی ڈی ایم کی جماعتیں ہی نہیں پی ٹی آئی کا ایک طبقہ بھی شامل ہے۔