وزیراعظم عمران خان نے جب ایوان میں تقریر کا آغاز کرنا چاہا تو اپوزیشن نے ڈیسک بجا کر ان کی توجہ ہٹا دی۔ اپوزیشن نے ڈیسک آصف زرداری کو خوش آمدید کرنے کے لیے بجایا تھا۔ وزیراعظم نے دوبارہ بولنے کی کوشش کی تو اپوزیشن نے دوبارہ ڈیسک بجانا شروع کر دیے اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ایوان میں آنے پر خوش آمدید کہا۔ تیسری مرتبہ تقریر شروع کرنے پر اپوزیشن نے بلاول بھٹو زرداری کو ایوان میں تشریف لانے پر ویلکم کر دیا۔ وزیراعظم عمران تین بار تقریر میں مداخلت کرنے پر کافی زچ ہوئے۔
وزیراعظم عمران خان نے جب قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کیا تو حکومتی بینچ نے ڈیسک بجا کر خراج عقیدت پیش کیا لیکن اپوزیشن کے بینچوں نے ایسا نہیں کیا۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو زردای سمیت تمام اپوزیشن سرد مہر رویے کے ساتھ بیٹھی دیکھتی رہی۔
پارلیمان میں موجود صحافیوں نے اس بات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتوں کو اس موقعے پر پارٹی بازی سے باہر نکلنا چاہیے اور ایک قوم ہونے کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔
سینئر صحافیوں نے کہا کہ ’آصف زرداری کے ایوان میں آنے پر اپوزیشن نے نعرہ بھٹو لگایا جو اس موقعے پر بالکل نامناسب تھا۔ یہ موقع پاکستان کا نعرہ لگانے کا ہے اور قائد حزب اختلاف کی جماعتیں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر نہیں نکل رہیں جو کہ بچگانہ رویہ ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں قائداعظم کے فرمودات سمیت بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان سے لے کر حضرت علی تک کی مثالیں دیں۔
وزیراعظم عمران خان کے ڈیسک پر دو پرچیاں رکھیں تھیں جن سے نکات دیکھ کر وہ تقریر کر رہے تھے۔ عمران خان شائد کچھ نکات بھول رہے تھے اس لیے پیچھے بیٹھے فواد چوہدری نے پرچی پر کچھ لکھ کر دیا اور پرچی وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے صادق سنجرانی کے حوالے کی۔ صادق سنجرانی نے وہ پرچی وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھ دی۔
فواد چوہدری کے مشورے پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت اگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کرے گا تو ہمارے پاس ٹیپو سلطان والا راستہ بچتا ہے.
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران حکومتی وزیر فواد چوہدری نے شہباز شریف پر جملہ کسا تو شہباز شریف ناراض ہو کر بیٹھ گئے لیکن پھر سپیکر کے کہنے پر دوبارہ تقریر شروع کی۔
اس سے قبل دن پونے بارہ بجے مشترکہ اجلاس شروع ہوا تھا لیکن وزیراعظم عمران خان کی غیر موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ کیا تو سپیکر نے اجلاس کو 12:05 پر 20 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں ناراض ہو کر اپنے اپنے چیمبر میں جا بیٹھیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم اور صدر بھی لیگ کے چیمبر میں مشاورت کے لیے موجود رہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے علی محمد خان اور اعظم سواتی ن لیگ کے چیمبر میں اُنہیں منانے آئے اور ذرائع کے مطابق یہ شرائط بھی رکھیں کہ اپوزیشن کی جماعتیں وزیراعظم کے ایوان میں آنے کے بعد سیلیکٹد کے نعرے نہیں لگائیں گے کیونکہ آج کا اجلاس قومی مفاد کے لیے ہے۔
اس دوران شہباز شریف ناراض ہو کر اسمبلی سے چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے چیمبر میں بھی اُن کے اراکین کی مشاورت ہوئی اور طے پایا کہ پہلے وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئیں گے تو قائد حزب اختلاف سمیت دیگر جماعتوں کے سربراہ بھی ایوان میں داخل ہوں گے۔
یوں 20 منٹ کا وقفہ چار گھنٹوں پر محیط ہوا اور چار بج کر پانچ منٹ پر اجلاس کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کے ایوان میں آنے کے پانچ منٹ بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما ایوان میں داخل ہوئے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم نے ایوان میں کہا کہ مودی سرکار نے اپوزشن کو دیوار سے لگا دیا ہے، لیکن آپ نے تو دیوار میں چن دیا ہے۔