مجھے آج بھی یاد ہے جب لاہور میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے نہتے کارکنان پر گولیاں چلائی گئیں، جس میں ایک حاملہ خاتون بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے ہم سب کو بہت رنج ہوا۔ ان خاتون کی بیٹی نے روتے ہوئے دہائی دی کہ میری ماں کو کیوں مارا، اس کا کیا قصور تھا؟
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دس سال ہو گئے لیکن آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا۔ کارکنان کو بات کرنے اور احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن مسلم لیگ ن کے دور میں ہونے والے اس واقعے کو آپ جمہوری آمریت کی بدترین مثال قرار دے سکتے ہیں۔ ایسے واقعات کو کور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں تو لواحقین میں سے ایک شخص نے روتے ہوئے بدعا دی تھی، ’یا اللہ ان امرا کے محل برباد کر دے۔‘
پر شاید قاتلوں کی رسی دراز ہوتی ہے، اس لیے انہیں نشان عبرت بن جانے میں وقت لگتا ہے۔
اس سانحے سے قبل ایک پولیس والے نے ایک لڑکی کے ساتھ بھی بدسلوکی کی تھی، جس کی سب نے مذمت کی۔ مردوں کو کسی صورت بھی خواتین پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مظاہرے کے وقت خواتین پولیس اہلکاروں کا موجود ہونا بہت ضروری ہے تاہم ہماری پولیس ریفارمز سے کوسوں دور ہے۔
اسی طرح کا ایک اور دلخراش واقعہ عمران خان کے دور میں بھی پیش آیا۔ یہ ’نیا پاکستان‘ تھا لیکن پولیس وہ ہی پرانے پاکستان والی تھی جب صلاح الدین ایوبی نامی ایک شخص کو اے ٹی ایم کی جانب منہ چڑھاتے ہوئے دیکھا گیا، جن کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ بعد ازاں وہ رحیم یار میں گرفتار ہوا اور پولیس کی حراست میں مارا گیا۔ ان کے والد نے تین پولیس والوں کے خلاف درخواست دی اور کہا کہ ان کی وجہ سے میرا بیٹا مارا گیا ہے۔
پورے ملک میں اس پر آواز اٹھائی گئی کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا، تاہم کچھ عرصے بعد ان کے والد نے تینوں پولیس والوں کو معاف کر دیا، جن میں ایس ایچ او، اے ایس آئی اور تفتیشی افسر شامل تھے۔
ہماری پولیس کو کوئی کب کچھ کہ سکتا ہے۔ معافی تلافی ہو گئی اور پولیس نے خود کو قتل کی سزا سے صاف بچا لیا۔
اسی طرح ساہیوال کی ایک پوری فیملی کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے تین بچوں کو گاڑی سے نکال کر پولیس ایک پیٹرول پمپ پر چھوڑ گئی۔ وہ بچے خود بھی زخمی اور سہمے ہوئے تھے۔
ایک بار پھر حساس پاکستانی رو دیے، لیکن اس نظام کو کسی پر ترس نہیں آتا۔ پہلے انہیں دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی گی، لیکن یہ سوال اٹھا کہ ایسے دہشت گرد کہاں ہوتے ہیں جو ساتھ دودھ پیتے بچوں کوبھی لے کر سفر کریں۔ خلیل کی فیملی بےگناہ تھی لیکن ان کو ماردیا گیا۔ سانحہ ساہیوال کے عینی شاہدین کو دھمکایا گیا اور ورثا بھی عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔
اس واقعے میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والی فیملی ایک شادی میں جا رہی تھی، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اسلحہ اور بارودی سامان لے کر جا رہے تھے، لیکن سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گولیوں کے باوجود وہ بارود پھٹا کیوں نہیں۔
پھر اس سانحے میں ملوث تمام افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیس تو کبھی جرم کر ہی نہیں سکتی، قصوروار تو عوام ہیں۔ ذیشان کا بھائی اور مقتول خلیل کے بچے ان لوگوں کی شناخت نہیں کر سکے جنہوں نے یہ ظلم کیا۔
اس کے بعد سلسلہ رکا نہیں۔ اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کو پولیس نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ملک کے قلب میں ایک ’جعلی پولیس مقابلے‘ میں نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور اس کے لواحقین کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اسامہ کوئی مجرم نہیں تھا، نہ اس نے کسی قانون کو توڑا لیکن اس پر 22 گولیاں برسائی گئیں۔
پولیس اتنا وحشیانہ تشدد کیوں کرتی ہے؟ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ملزمان کو تحویل میں ڈنڈوں اور چھتروں سے مارا جاتا ہے، کرنٹ لگایا جاتا ہے، زد و کوب کیا جاتا ہے، ان کے نازک اعضا پر تشدد کیا جاتا ہے اور ان کے گھر والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
پولیس جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے یا مجرم کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اکثر لوگوں کی ویڈیوز حوالات سے بنا کر پھیلا دی جاتی ہیں تاکہ عوام پر اس مارپیٹ کا خوف رہے۔
جب عمران خان کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ اس سب کے دوران ایک پولیس والے نے خاتون پر پستول تان لی۔ ایک جمہوری ملک میں کیا سیاسی جماعتوں کو یہ حق نہیں کہ وہ مظاہرہ کر سکیں؟ اسی طرح یاسیمن راشد کی گاڑی توڑ دی گئی۔
پولیس کو عمومی طور پر حکومت اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہے، یہاں تک کہ پولیس تحریک انصاف کے کارکنان کے گھروں میں کود پڑی۔ کوئی مسئلہ ہو تو دن میں وارنٹ لے کر آئیں یا متعلقہ شخص کو تھانے بلا لیا جائے، لیکن گھروں میں کودنا کہاں کی گورنس ہے؟
اسی طرح پی ٹی آئی کے دیگر مظاہرین کو آنسو گیس، ڈنڈوں اور واٹر کنین کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس پانی میں کیمیکل ملایا جاتا ہے اور آنسو گیس کے شیل بھی اکثر و بیشتر زائد المعیاد ہوتے ہیں، جس سے مظاہرین کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پولیس گردی، ماورائے عدالت قتل اور تشدد نے عوام کا اعتماد پولیس پر سے کم کر دیا ہے۔ میرے شوہر ارشد شریف کو کینیا کی پولیس نے جان بوجھ کر قتل کیا۔ یہ صحافی کی ٹارگٹ کلنگ تھی لیکن اس کو غلطی قرار دے کر کیس کو تقریباً بند کر دیا گیا ہے۔ وہاں کی پولیس بھی یہاں جیسی ہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے یاد ہے کہ ارشد اتنے محتاط اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری تھے کہ وہ رات کے دو بجے بھی سگنل نہیں توڑتے تھے اور ہمیشہ سیٹ بیلٹ لگاتے تھے۔ کبھی پولیس روکے تو ان کو سر کہہ کر مخاطب کرتے اور مکمل تعاون کرتے۔
جو کہانی کینیا کی پولیس سناتی ہے وہ جھوٹی ہے، ارشد ٹریفک قوانین کی خلاف وزری نہیں کرتے تھے، نہ قانون کو توڑتے تھے۔ پولیس نے ان کو سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا۔
پہلے ایک جھوٹی کہانی بنائی کہ گاڑی سے فائر ہوا۔ ارشد کبھی اسلحہ ساتھ نہیں رکھتے تھے۔ دوسرا وہ پولیس ناکے اور سگنل پر گاڑی روکتے تھے۔ اگر گاڑی چلانے والا کوئی اور ہو تو اس کو بھی یہ تاکید کرتے کہ وہ قانون کی پاس داری کرے۔
ان کی گاڑی کو ایک اور گاڑی کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی، یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ دونوں گاڑیوں کے ماڈلز اور کمپنی نمبر الگ تھے۔
بس جب انصاف نہیں دینا تو کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔ پھر کینیا کی پولیس نے ڈھٹائی کے ساتھ یہ قتل قبول کر لیا تاہم اب تک کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ اتنا قابل صحافی چلا گیا، صحافی برادری متحد نہیں ہوئی، نہ ہی اس کے لیے انصاف میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ یہ جنگ ہم لواحقین اکیلے لڑ رہے ہیں۔
اب ظلِ شاہ چلا گیا، اس کو پولیس لے کر گئی تھی لیکن پولیس کہتی ہے کہ ہم نے نہیں مارا۔ اگر ریاست ماں کے جیسی ہے تو ان کیسز میں خود مدعی بن جایا کرے تاکہ لواحقین کو انصاف مل سکے۔
ہم سب ظلِ شاہ ہیں، ہمیں کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ ہماری موت بیچی جائے گی۔ چند دن شور ہو گا، قاتلوں کو سزا نہیں ملے گی، لواحقین کو ڈرایا جائے گا اور پھر کیس بند ہو جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔